Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

ستمبر 2022

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوا ر مدینہ
جلد : ٣٠ صفر المظفر ١٤٤٤ھ / ستمبر ٢٠٢٢ء شمارہ : ٩
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 40 روپے ....... سالانہ 500 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور اِی میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
E-mail: jmj786_56@hotmail.com
darulifta@jamiamadniajadeed.org
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
اکائونٹ نمبر ا نوارِ مدینہ
00954-020-100- 7914 - 2
مسلم کمرشل بنک کریم پارک برانچ راوی روڈ لاہور(آن لائن)
دفتر انوار ِ مدینہ : 0333 - 4249302
جامعہ مدنیہ جدید : 042 - 35399051
خانقاہ ِحامدیہ : 042 - 35399052
دارُالافتاء : 042 - 35399049
موبائل : 0333 - 4249301
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٧
دعوت اِلی اللہ ... دعوت اِلی اللہ کی دُشوارگذار گھاٹی حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب ١٢
کسبِ معاش میں شرعی حدود کی رعایت حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ١٦
ماہِ صفر اور نحوست سے متعلق نبوی ہدایات ٢١
بد شگونی اور اِسلامی نقطۂ نظر حضرت مولانا مفتی رفیع الدین صاحب قاسمی ٢٣
تعلیم النسائ حضرت مولانا محمداَشر ف علی صاحب تھانوی ٣١
ذِکرِحَسنَین رضی اللہ عنہما حضرت سےّد اَنور حسین نفیس الحسینی شاہ صاحب ٣٨
گلدستہ ٔ اَحادیث حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ٣٩
فضائلِ سورۂ اِخلاص الشیخ محمد یوسف بن عبداللہ الارمیونی ٤٢
مکتوبات شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی حضرت مولانا تنویر احمد صاحب شریفی ٤٩
کارٹون بینی، ویڈیو گیم اور مسلمان بچے حضرت مولانا مفتی محمد شہزاد شیخ صاحب ٥٨
تعمیر مسجد حامد
١٨ محرم الحرام ١٤٤٤ھ/١٧ اگست ٢٠٢٢ء سے جامعہ مد نیہ جدید کی زیر تعمیر مسجد حامد کی فال سیلنگ کا کام جاری ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور آسانیاں پیدا فرمائے ، آمین
حرف آغاز
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
جیسے جیسے حضرت امام مہدی علیہ الرضوان ، سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ملعون دجالِ اکبر کا دور قریب آتا جارہا ہے ویسے ویسے خود بخود جہاد فی سبیل اللہ کی ضرورت و اہمیت بڑھتی چلی جارہی ہے اور ساتھ ساتھ ماحول بھی بنتا چلا جارہا ہے ! کیونکہ دنیا میں جتنا ظلم بڑھتا چلا جائے گا ردعمل کے طور پر جہاد کی راہ ہموار ہوتی چلی جائے گی ! جہاد کی راہ مسدود کرنے کے لیے عالمی قوتیں اپنے ظلم میں مزید اضافہ کرتی چلی جارہی ہیں کیونکہ ظلم کے علاوہ ان کے پاس کوئی عادلانہ نظام نہیں ہوتا اس لیے ردعمل کو روکنے کے لیے اُسی عمل کو دوہراتی رہتی ہیں جو ردعمل کا سبب بن رہا ہوتا ہے گویا اپنے بائولے پن میں فطرت، طبیعت اور سائنس کے اصولوں کو بھی نظر انداز کیے چلی جاتی ہیں اور اپنی ہی لگائی ہوئی آگ کو تیل چھڑک کر ہی بجھانا چاہتی ہیں کیونکہ ان عالمی آگ بگولوں کے پاس سوائے آتش کے کچھ ہوتا بھی نہیں اس لیے ردعمل کے طور پر دنیا بھر میں خود بخود جہادی صف بندی کا مرئی اور غیر مرئی عمل شروع ہوچکا ہے ! !
جہاد چونکہ انبیاء علیہم السلام کی قیامت تک کے لیے سنت ِ جاریہ ہے جس کو اُن کے بعد صحابہ کرام اور صالحین ِ اُمت آج تک کسی نہ کسی درجہ میں زندہ رکھے ہوئے ہیں اس لیے میرا دل چاہتا ہے کہ جہاد کے دوران صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالٰی علیہم اجمعین سے جو دُعائیں منقول ہوئی ہیں اُن میں سے دورانِ مطالعہ جو میری نظر سے گزری ہیں اُن کو اِس جریدے کے حرفِ آغاز میں تحریر کردُوں تاکہ دنیا میں پھیلے مجاہدین میں سے جن کو اِن دعائوں کا علم نہ ہو وہ اِن کو اِختیار کرکے ان کی برکات سے مستفیض ہوں کیونکہ اسلام کی سیاسی ، جہادی اور دیگر تمام تحریکات کا اصل سرمایہ رُجوع اِلی اللہ ہے جس کا ایک بڑا ذریعہ دعا ہے ! ! حدیث شریف میں آتا ہے لَیْسَ شَیْی اَکْرَمَ عَلَی اللّٰہِ مِنَ الدُّعَائِ ١ اللہ کے دربار میں دعا سے بڑھ کر قابلِ قدر کوئی چیز نہیں ہے !
یہ بھی ارشاد ہے اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَةِ ٢ دعا عبادت کا جوہر(نچوڑ ) ہے !
نیز اِرشاد فرمایا مَنْ سَرَّہُ اَنْ یَّسْتَجِیْبَ اللّٰہُ لَہ عِنْدَ الشَّدَائِدِ فَلْیُکْثِرِ الدُّعَائَ فِی الرَّخَائِ ٣
شدت (اور سختی ) کے وقت جو چاہتا ہے کہ اُس کی دُعا سنی جائے اُس کوچاہیے کہ سہولت (اور آسانیوں ) کے زمانہ میں(بھی) کثرت سے دعا کیا کرے ! !
راقم الحروف نے جن دعائوں کے تحریر کرنے کا ارادہ کررکھا ہے فوری اور ضروری کام درپیش آجانے کے سبب اس کے لیے درکار مناسب وقت مہیا نہیں ہوپارہا لہٰذااسی پر بس کرکے اگلے ماہ کے حرفِ آغاز میں ان دعائوں کو آپ کی خدمت میں پیش کروں گا ان شاء اللّٰہ تعالٰی
پورے ملک میں خطرناک سیلابی صورتِ حال کے سبب بلوچستان ، جنوبی پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخوا میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہے ایک بڑی تعداد بے گھر ہوگئی ہے مال مویشی کھیت بُری طرح تباہ ہوگئے ہیں ! لہٰذا توبہ و اِستغفار کی کثرت کے ساتھ ساتھ تباہ حال بھائیوں کی مدد کے لیے ہرمسلمان سے جو بن پڑے کرنا چاہیے !
١ ترمذی و ابنِ ماجہ بحوالہ مشکوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٢٣٢
٢ ترمذی بحوالہ مشکوٰة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٢٣١
٣ ترمذی بحوالہ مشکوٰة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٢٤٠
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ملک کے طول و عرض سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ مدارس اور مذہبی جماعتوں سے علماء اور طلبہ کی بڑی تعداد اپنے تباہ حال بھائیوں کی مدد کے لیے مسلسل سیلاب زدہ علاقوں میں موجود ہے اور کاموں کی نگرانی کر رہی ہے جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ کی طرف سے'' الحامد ٹرسٹ'' کے تحت رضا کار بھی خدمات انجام دے رہے ہیں والحمد للّٰہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں، آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (اِدارہ)
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اچھائی کا بدلہ اچھائی اور اُس کی شکلیں ! !
( درسِ حدیث نمبر٢٧ ٣ ربیع الثانی ١٤٠٢ھ/٢٩ جنوری ١٩٨٢ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ جناب ِرسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا مَنِ اسْتَعَاذَ مِنْکُمْ بِاللّٰہِ فَاَعِیْذُوْہُ جو آدمی تم سے پناہ طلب کرے خدا کا نام لے کر تو اُسے پناہ دو ! وَمَنْ سَأَلَ بِاللّٰہِ فَاَعْطُوْہُ اور اگر کوئی خدا کا نام لے کر تم سے سوال کرتا ہے تو اُسے دو !
وَمَنْ دَعَاکُمْ فَاَجِیْبُوْہُ جو تمہیں بلائے اُس کے پاس جائو !
وَمَنْ صَنَعَ اِلَیْکُمْ مَّعْرُوْفًا فَکَافِئُوْہُ اور جو تمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے تو اُس کا بدلہ دو !
فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا مَا تُکَافِئُوْہُ اگر تمہیں میسر نہیں ہے کہ اُس کا بدلہ چکا سکو، اُس نے تو تمہارے ساتھ یہ بھلائی کی ہے وہ تو بھلائی کرنے پر قادر تھا چاہے روپیہ سے مدد کی ہو چاہے اپنے تعلقات یا اَثرات کے ذریعہ تمہارے ساتھ اُس نے بھلائی کردی ہے، تمہارے ذمے یہ ہے کہ بدلہ دو اُس کا اور ہے نہیں قدرت اتنی ، نہ استطاعت ہے نہ اثرات ہیں کہ اُس کے احسان کا بدلہ دیا جاسکے ! ؟
تو اِرشاد فرمایا فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا مَا تُکَافِئُوْہُ فَادْعُوْا لَہ اگر تمہیں مکافات کے لیے استطاعت نہ ہو تو پھر طریقہ یہ ہے کہ اُس کے واسطے دُعا کرتے رہو حَتّٰی تَرَوْا اَنْ قَدْ کَافَأْتُمُوْہُ ١ اتنی دفعہ دُعا کرو کہ یہ اندازہ ہو تمہیں کہ تم نے اُس کا بدلہ دے دیا ! ! !
١ مشکوٰة المصابیح کتاب الزکوة رقم الحدیث ١٩٤٣
یہ سب چیزیں حسنِ اخلاق کے اندر داخل ہیں، رسول اللہ ۖ نے ان کی تعلیم فرمائی ہے اور یہ خصوصیت اسلام کی ہے ! باقی اور مذاہب میں مفصل تعلیمات نہیں ملتیں ! (اس حدیث مبارک میں) کچھ احکام بھی آگئے مثلاً کوئی آدمی خدا کا نام لے کر کہتا ہے کہ خدا کے واسطے مجھے پناہ دو بچائو ! تو اُس کی مدد کرنی چاہیے ! اسی طرح سے کوئی سوال کرتا ہے ! تو اُسے ضرور دینا چاہیے ! اور دینے کے لیے یہ ہے کہ جو کچھ دے سکتے ہو وہ دو ! ! !
پیشے کے طور پر مانگنے والوں کا مسئلہ :
آج کل یہ بات ہوگئی ہے کہ یہ جو پیشہ ور ہیں مانگنے والے اور خدا کا نام لیتے ہیں اور اضطراب ظاہر کرتے ہیں ! یہ تو ایسے ہوگیا جیسے ایکٹنگ کرتے ہیں ! ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یوں ہیں ، یوں ہیں مرگئے ! جب یہ نوٹ کینسل ہوئے تھے یحییٰ خان کے زمانے میں ! تو اُن لوگوں کے پاس سے لاکھوں روپے جمع نکلے تھے ! اُن کے بینک بیلنس ہیں ! اور اُنہوں نے جا جاکر نوٹ بدلوائے ہیں ! پھر پتہ چلا ہے کہ یہ تو رئیس ہے اور بنا پھرتا ہے فقیر ! چائے کا وقت آیا کسی ہوٹل پر پہنچ گئے اُس نے چائے دے دی ! کھانے کے وقت کسی جگہ پہنچ گئے کھانا کھالیا ! باقی جو مانگتے رہے وہ جمع ہوتا رہا ! ا ور صبح سے شام تک بیس پچیس تیس پچاس جتنے بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں ! مسجد میں موقع ہو وہاں ! مزار پرموقع ہو وہاں ! جہاں بھی موقع لگے وہاں وہ مانگتے ہیں ! عید اور بقر عید وغیرہ پر بھی ! کوئی جگہ ہو میلہ ٹھیلہ ہر جگہ پر ! تو یہ تو پیشہ ور ہوئے اُن کے لیے کیا حکم ہے ؟ یہ تو خدا ہی کے نام پر مانگتے ہیں بار بار لیتے ہیں ! اور کہیں شیعہ ہوں گے تو وہاں حسین کے نام پر مانگیں گے ! حسن کے نام پر مانگیں گے ! کہیں کچھ اور کریں گے ! باقی عام طور پر تو خدا کے نام پر اور اِضطرار ظاہر کرکے بے چینی ظاہر کرکے پریشانی ظاہر کرکے مانگتے ہیں ! خدا کا نام بھی مؤثر طرح لیتے ہیں ! تو اُن کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اُن کو آدمی ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے، یہ نہیں کرسکتے ! ( وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلا تَنْھَرْ ) ١ جو مانگنے والا ہے اُسے جھڑکو مت ! یہ منع ہے ! جھڑک نہیں سکتے سمجھا سکتے ہیں !
١ سُورة الضحٰی : ١٠
اور اسی حدیث سے یہ سبق بھی مل رہا ہے کہ اُس کے لیے دُعا بھی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تیری اصلاح کرے ہدایت دے ! چاہے اُس سے کہے زبان سے اور چاہے دل میں اُس کے لیے دُعا کرے ! یہ بھی نیکی ہوجائے گی ! کیونکہ کام تو سارے غیب سے ہوتے ہیں، پتا ہی نہیں چلتا ! آدمی خواب دیکھ لیتا ہے کہ یوں ہورہا ہے، ایسے ہوا ہے ، ایسے ہوا ہے، دس سال بیس سال چالیس سال بعد جاکے وہ خواب پورا ہوتا ہے ! معلوم ہوتا ہے کہ عالَمِ غیب میں بہت کچھ موجود ہے، سب کچھ وہاں ہوتا ہے !
غیر مادّی عالَم میں مدد :
پھر جو لوگ یہاں اِس عالَم میں مدد نہیں کرسکتے مادّی ! تو غیر مادّی دُنیا میں تو مدد کرسکتے ہیں ! غیر مادّی عالَم میں تو مدد کرسکتے ہیں ! وہ غیر مادّی عالَم یہی ہے کہ اللہ سے دُعا کردی جائے اُس کی ہدایت کی ! اللہ اُسے ٹھیک کردے ہدایت دے دے ! اگر سامنے کہوگے تو وہ چڑے گا لڑے گا !
تو ایک اس کے لیے یہ حکم ہوا کہ ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو، جھڑکو مت ! جھڑک نہیں سکتے ! !
دوسرے یہ بھی کرسکتے ہو جیسے یہاں کہ دُعا بھی ایک طرح کا بدلہ ہے احسان ہے، وہ کرسکتے ہو ! غائبانہ دل دل میں ! اور اُسے سمجھا بھی سکتے ہو !
اور بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ وہ بیچارہ فقیر ،سچ مچ کا فقیر ہے، وہ سچ مچ ضرورت مند ہے ! وہ آپ سے سوال کرتا ہے آپ کو پتہ ہے کہ یہ ضرورتمند ہے، یہ بھی پتہ ہے کہ میرے پاس نہیں ہے میں(مدد) نہیں کرسکتا ! پھر بھی یہی حکم ہے کہ اُس کے لیے دُعا کرو ! ! دعا کے اثرات :
اور دُعا کے اثرات چلتے ہیں قیامت تک ! ایسے لمبے ہوتے ہیں اثرات ! ! ؟ ؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہی ہے جو مکہ مکرمہ میں زم زم اور گوشت دو چیزیں ملتی ہیں ! ! رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں کہ دُنیا میں کسی بھی جگہ کوئی آدمی اگر رہے اِن دو چیزوں پر زندگی نہیں گزارسکتا ! لیکن مکہ مکرمہ میں اگر رہے اور یہ دو چیزیں میسر آتی رہیں تو وہ صحت سے بھی رہے گا اور زندگی گزرجائے گی ١ ! ؟
١ '' اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَھُمْ فِی اللَّحْمِ وَ الْمَائِ '' صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء رقم الحدیث ٣٣٦٤
اور اُنہوں نے دُعا فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ یہاں پھل بھیج تو پھل پہنچ جاتے ہیں ! ؟ اور اب وہاں پہنچنے شروع ہوگئے ہوں گے آم ہم سے بہت پہلے سے ! اور بہت بعد تک چلتے ہیں ! افریقہ وغیرہ سے آگئے ! ( وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ ) ١ کی دُعا اُنہوں نے کی تھی وہ قبول ہوگئی، وہ پہنچتے ہیں کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی طرح پہنچتے ہیں ! یہ اللہ کے بس کی بات ہے ! کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہاں جانے سے رزق کو روک لے ! اور شاید وہاں قحط کے زمانے میں بھی پہنچتے ہوں ! ؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں قحط ہو ہی نہیں سکتا ! ! ساری دُنیا میں ہوگا وہاں نہیں ہوگا ! ؟ حالانکہ وہاں پیدا کچھ نہیں ہوتا وہ زمین ایسی ہے کہ وہاں پیداوار نہیں ! ! لیکن دُعا ہوگئی ہے تو وہاں ضرور پھل پہنچتے ہیں ! !
تو اگر کوئی سچ مچ ایسا(غریب) ہے تو اُس کے لیے اور طرح دُعا کرے اور زیادہ کرے دُعا ! اور وہ دُعا قبول ہوجائے اُس کے حق میں تو پھر اس کا چلتا رہے گا سلسلہ ! مگر اصل میں کام وہاں(عالمِ غیب میں) ہوتے ہیں ،ظاہر یہاں ہوتے ہیں ! یہاں بعد میں ظاہر ہوتے ہیں ! وہاں پہلے سے طے ہوجاتے ہیں ! اور دُعا کے اثرات زبردست ہوتے ہیں ! ! !
فوری شکریہ کیسے ادا کر ے ؟
اور پھر یہ طریقہ بتلادیا کہ تمہارے ساتھ کسی نے حسن ِسلوک کیا اور تمہیں قدرت نہیں ہے بدلہ دینے کی ! اس کا کیا کیا جائے ؟ اُس کا بھی یہی ہے کہ اُس کا فی الوقت'' شکریہ'' ادا کیا جائے
مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ ٢ جو آدمی لوگوں کا شکر گزار نہیں ہے وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں بنتا !
دُعا کب تک ؟
اور دوسرے یہ کہ اُس کے ساتھ یہ حسن ِسلوک کرتے رہو کہ اُس کے لیے دُعا کرتے رہو ! حتی کہ اپنے ذہن میں یہ بات آجائے کہ میں نے اُس کے احسان کے مطابق کرلی ہے دُعا ! بعد میں
١ سُورۂ ابراہیم : ٣٧ ٢ مشکوة المصابیح کتاب البیوع رقم الحدیث ٣٠٢٥
اختیار ہے چاہے ساری عمر کرتے رہو چاہے تھوڑے عرصے تک ! اتنے عرصے کرنی ضرور چاہیے جتنی حدیث میں بتلادی گئی ہے ! ! !
یہ سب اخلاقی چیزیں ہیں ! تعلیمات ہیں، محبت ہے، شفقت ہے ،غائبانہ محبت ! تو غائبانہ حقوق کی رعایت رکھ دی ! اتنے بلند اخلاق اور ایسی چیزیں اسلام کے سوا کسی مذہب میں ہیں ہی نہیں ! ! اور مسلمان جیسا بے عمل اور بے خبر بھی کوئی نہیں ہوگا کہ اتنی چیزیں موجود ہیں اُسے خبر تک بھی نہیں ؟ اور خبر بھی ہوجائے تو عمل نہیں ! ! ؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا سے نوازے اور مرضیات پر چلائے، آمین۔اختتامی دُعا.....................
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جون ١٩٩٥ئ)
خدائے رحمن کو محبوب دو کلمے
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ ۖ کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ

( صحیح البخاری کتاب التوحید رقم الحدیث : ٧٥٦٣ )
''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو خدائے رحمن کو محبوب و پیارے ہیں،زبان پر تو ہلکے ہیں لیکن ترازو میں(یعنی میزانِ عمل میں) بہت بھاری ہیں ! وہ دو کلمے یہ ہیں :
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ
علمی مضامین سلسلہ نمبر٣٦ (قسط : ٣)
دعوت اِلی اللہ
دعوت اِلی اللہ کی دُشوارگذار گھاٹی ..... جہاد فی سبیل اللہ
( حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ )
یقینا دعوت اِلی اللہ کے سلسلہ میں کوئی جبر و قہر اور کوئی زبردستی نہ ہونی چاہیے ، بے شک داعی حق کاکام صرف یہ ہے کہ دلوں کے دروازوں پر دستک دے دے ، اگر کوئی نہیں کھولتا تو بلا شبہ اس کو حق نہیں کہ کسی دروازے کو زبردستی کھولے یا کسی دریچے کو توڑے ! ! !
یہ بھی درست ہے کہ داعی اِلی اللہ کو صبر وتحمل اور مسلسل برداشت سے کام لینا چاہیے ، لوہے کے کنگھے سے اس کا گوشت کھرچا جائے ، اس کی بوٹیاں نوچی جائیں ، اس کو کھولتے ہوئے کڑھائے میں ڈال دیا جائے ، اس کے سر پر آرہ رکھ کر پورا بدن چیر کر دو ٹکڑے کر دیئے جائیں تو اس کا کمال یہی ہے کہ وہ ضبط وتحمل ، صبراور برداشت سے کام لے ! ! ظالم کے حق میں یہی دعا کرے ! !
اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ '' اے اللہ میری قوم کو سیدھا راستہ دکھا دے وہ مجھے جانتے نہیں ہیں ''
لیکن اگر شکل یہ ہو کہ مخلوقِ خدا ظلم کی چکی میں پیسی جا رہی ہو ! رائے کی آزادی سلب کر لی گئی ہو ! پیٹ کو اگرچہ آسودگی میسر ہو مگر ضمیر کی آزادی پر تالے پڑے ہوئے ہوں ! طائر ِفکر ١ کو آہنی قفس میں گھونٹ دیا گیا ہو ! ایک شخص کا ضمیر ایک بات کو حق سمجھتا ہو ، وہ مضطر اور بے چین ہو کہ اس حق کو قبول کرلے مگر اس کو مجبور کیا جارہا ہو کہ وہ اپنے ضمیر کے فیصلہ پر عمل نہ کرے ! وہ حق کو حق نہ سمجھے بلکہ غلط اور باطل کو حق سمجھے ! اگر وہ ضمیر کے فیصلہ پر عمل کرے اور باطل کے دائرے سے نکلنا چاہے تو پہلے اپنی جان سے ہاتھ دھولے پہلے پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالے پھر قدم بڑھانے کا ارادہ کرے ! ! ؟
١ حریت ِ فکر
اگر صورتِ حال یہ ہو تو کیا داعی حق کا فرض اب بھی یہی ہوگا کہ وہ ظلم کے شعلوں کو بھڑکتا ہوا دیکھتا رہے اور ان کو بجھانے کی کوشش نہ کرے ؟ وہ مظلوموں کو جھلستا ہوا دیکھے ، ان کی آہیں سُنے اورا پنی جگہ سمٹا ہوا بیٹھا رہے ، ظالم کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہ کرے ! ؟
اگر اس وحشت انگیز صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے داعی کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے تو اس کی دعوت کا پروگرام ناقص ہے ادھورا ہے ، ناقابلِ قبول ہے ! اگر داعی کی دعوت کا تعلق کسی خاص گروہ سے ہے اور وہ اسی گروہ کے نجات دہندہ کی حیثیت سے ظہور پذیر ہوا ہو، تب بھی ممکن ہے کہ اس گروہ کے علاوہ باقی مخلوق سے اس کا کوئی واسطہ نہ ہو، کوئی ظالم ہو یا مظلوم ! !
لیکن اگر داعی سارے جہان کا درد اپنے دل میں لے کر آیا ہے ، اس کی خیرخواہی اور خیراندیشی کا رشتہ پوری نوعِ انسان اور نوعِ انسان کے ہر طبقہ سے جڑا ہوا ہے ! اس کا نصب العین یہ ہے کہ تمام دنیا جہان کے لیے رحمت ہو ! ہر ایک کے درد کا درماں اور ہر ایک کے دُکھ کا علاج ہو تو لامحالہ اس کا فرض ہوگا کہ وہ ظلم کی اِس چیرہ دستی کو ختم کرے اور مظلوموں کی آہ وبکا اور گریہ وزاری کو قلب ِمضطر کے کانوں سے سنے ، وہ ان کی فریادرَسی کے لیے اُٹھے اور اس عزم کے ساتھ اُٹھے کہ
یا تن رسد بہ جانان یا جاں زتن بر آید ١
یہی وہ جدوجہد ہے جو داعی پر بحیثیت ِداعی فرض ہے اور جس کو اسلام '' جہاد فی سبیل اللہ '' کہتا ہے ! تمام جہانوں کا رب اور ساری مخلوق کا پروردگار اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :
( وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ) ( سُورة النساء : ٧٤)
'' اور (مسلمانو) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے حالانکہ کتنے ہی بے بس مرد ہیں ، کتنی ہی عورتیں ہیں ، کتنے ہی بچے ہیں ( جو ظالموں کے ظلم
١ یا جان محبوب تک پہنچے یا جان جسم سے باہر نکل جائے۔
سے عاجز آکر ) فریاد کررہے ہیں خدایا ! ہمیں اس بستی سے جہاں کے باشندوں نے ظلم پر کمر باندھ لی ہے نجات دلا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا کارساز بنا دے اور کسی کو مددگاری کے لیے کھڑا کر دے '' ١
یہ ہے جہاد فی سبیل اللہ ! کیا اِس کو دعوت اِلی اللہ کا ایک نہایت ضروری شعبہ نہیں کہا جائے گا ؟ ؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دعوت اِلی اللہ بے دست وپا رہے گی جب تک اس میں قوتِ مقابلہ نہ ہو جو ظلم کے ہاتھ روک سکے اور مظلوموں کو نجات دلانے کے لیے اقدام بھی کر سکے ۔
یہ جہاد کب تک رہے گا ؟ ؟ رب العالمین نے اس کی یہ حد بیان فرمائی ہے :
( وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَة وَّ یَکُوْنَ الَّدِیْنُ کُلُّہ لِلّٰہِ ) ( سُورة الانفال : ٣٨ )
١ نزولِ آیت کے وقت یہ حالت مکہ کی تھی کہ وہاں بہت سے مسلمان مشرکینِ مکہ کے ظلم وستم کا تختۂ مشق بنے ہوئے تھے ابوجہل کے حقیقی بھائی حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کے ماں شریک بھائی عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مکہ کے رئیسِ اعظم ولید بن مغیرہ کے لڑکے کہ اِن کا نام بھی ولید ہی تھا (ولید ابن ولید ) مسلمان ہوگئے تھے ! ان کو باندھ کر ڈال دیا گیا تھا کہ ہجرت نہ کر سکیں، اس طرح اور بھی عورتیں اور مرد تھے جو مجبور مقہور تھے اور مکہ سے نکل نہیں سکتے تھے ! آنحضرت ۖ نمازوں میں ان کے لیے دعا کیا کرتے تھے ( بخاری شریف ص ١١٠ ، ١٣٦ ، ٩٤٦ وغیرہ ) لیکن ظاہر ہے آیت میں مکہ کی قید نہیں ، جب بھی اور جہاں بھی یہ صورتِ حال ہوتو مسلمانوں کو جہاد کی ہدایت کی گئی ہے
بیشک دورِحاضر کا بین الاقوامی قانون یہ ہے کہ کسی مملکت کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا کسی دوسرے ملک کو حق نہیں ہے ! مگر ظاہر ہے یہ بین الاقوامی قانون انسانی ہمدردی اور خلقِ خدا کے فلاح وبہبود کے جذبہ سے ناآشنا ہے ! کیونکہ دورِ حاضر کی حکمراں قوموں کا نصب العین صرف یہ ہے کہ اُن کا اقتدار باقی رہے اور عظمت کے جس منارہ پر وہ رونق افروز ہیں اس میں جنبش نہ آئے ! بیشک ان قوموں کے افراد میں خلقِ خدا کی ہمدردی کا جذبہ موجود ہے اور اسی جذبہ کی بنا پر ان کے یہاں بہت سے خیراتی ادارے اور بڑے بڑے خیراتی فنڈ قائم ہیں ! مگر ان کی حکومتوں کا نصب العین نہ خلقِ خدا کی خدمت ہے ، نہ انسانی ہمدردی ، نہ کوئی اخلاقی اور رُوحانی دعوت ان کے مقاصد میں داخل ہے !
یہی سبب ہے کہ ممالک کی اندرونی تحریکات خواہ کتنی ہی انسانیت کُش اور ہلاکت انگیز ہوں مگر بین الاقوامی پنچایت کوئی مداخلت نہیں کرتی ؟ ! اسلام اس سنگدلی کو برداشت نہیں کرتا ! ! !
'' ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ ظلم و فساد باقی نہ رہے ١ اور دین کا سارا معاملہ اللہ ہی کے لیے ہو جائے ٢ ( انسان کا ظلم اس میں مداخلت نہ کرسکے ) '' ٣ (جاری ہے)
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org
١ آیت میں لفظ فتنہ ہے یعنی لڑتے رہو جب تک فتنہ نہ رہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر یہ فرمائی کان الاسلام قلیلا کانَ الرجل یفتن فی دینہ امّا قتلوہ وامّا یعذبوہ حتی کثر الاسلام فلم تکن فتنة (بخاری شریف ص ٦٤٨) یعنی مسلمان تھوڑے تھے جو شخص مسلمان ہوتا وہ اپنے دین کے بارے میں مصیبت میں مبتلا ہوجاتا تھا یا اُس کو قتل کر دیتے تھے یا عذاب میں مبتلا کر دیتے تھے ، یہاں تک کہ اسلام کی کثرت ہوگئی تو یہ فتنہ نہ رہا یعنی مخالفین ِدین کا ظلم وفساد نہیں رہا ۔
٢ یعنی اعتقاد کی آزادی حاصل ہو جائے اور دین کا معاملہ جس کا تعلق صرف اللہ سے ہے ، خدا اور اِنسان کا باہمی معاملہ ہو جائے انسان کے ظلم وتشدد کی مداخلت باقی نہ رہے ۔
٣ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ ملک جہاں اس طرح کا بیجا دباؤ اور ظلم زیادتی ہو وہ اسلامی حکومت کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے باجگذار(رعیت) ہوجائے یا وہ افراد جو اِس طرح کے ظلم میں شریک اور اس کے معاون ومددگار ہیں اسلامی حکومت کے تحت میں آکر جزیہ ( حفاظتی ٹیکس ) ادا کرنے لگیں ، حکومت ان کی جان ومال کی عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہوجائے ۔ سورۂ توبہ کی آیت ٢٨ میں اِس کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ۔
قسط : ٢ ، آخری
کسبِ معاش میں شرعی حدود کی رعایت
( حضرت مولانامفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ،انڈیا )
شیئر بازار میں سرمایہ کاری :
آج کل عالمی معیشت میں شیئرز کے خریدو فروخت کا کاروبار روز بروز بڑھتا جا رہاہے ! جب ہم شرعی نقطئہ نظر سے اس کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ معلوم ہوتاہے کہ چونکہ آج کل اقتصادی مارکیٹ میں سود اور قمار ریشہ ریشہ میں داخل ہو چکے ہیں اس لیے اسٹاک ایکسچینج کی دُنیا میں زیادہ تر کاروبار سٹہ بازی پر مشتمل ہوتا ہے اور فرضی کمپنیوں کے فرضی شیئر زاور شیئر ز کی قیمتوں میں مصنوعی اُتار چڑھاؤ کے ذریعہ سرمایہ کی اُلٹ پھیر زور شور سے جاری رہتی ہے، اس طرح کے سٹے بازی کی اسلامی شریعت میں دُور دُور تک گنجائش نہیں ہے اور سٹے والے شیئر ز کا کاروبار کسی بھی طرح اسلامی اُصولوں پر منطبق نہیں ہوسکتا ! تا ہم سٹے بازی سے ہٹ کر شیئر ز کارو بار کی کچھ شکلیں نکل سکتی ہیں جن کے متعلق علمائِ محققین کی اُصولی طور پر دو راہیں پائی جاتی ہیں :
(١) بعض محقق مفتیان و علماء کی رائے یہ ہے کہ شیئرز کا کاروبار شرعی نقطہ نظرسے در اصل ''اجارہ'' کا کاروبار ہے یعنی تمام شیئر ز ہولڈر (خریدارانِ حصص )شریک فی الاموال ہیں اور کمپنی کے ڈائریکٹر ان کے اَجیر ہیں اور چونکہ یہ ڈائریکٹر من مانی طور پر کمپنی کی آمدنی اپنے ذاتی مصارف میںصرف کرتے ہیں اس لیے اُن کی اُجرت کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی لہٰذا اِس جہالت کی وجہ سے سرے سے یہ پورا معاملہ ہی ناجائز ہے ! اور کمپنی اگر چہ حلال مصنوعات بناتی ہو پھر بھی اجارۂ فاسدہ ہونے کی وجہ سے اس میں کسی صورت بھی سرِدست جواز کی گنجائش نہیں ہے ! اور اگر اجارہ کے فساد کو اور سودی لین دین کے امکان کو ختم کرکے شیئرز کی کوئی صورت نکالی جائے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ (تفصیل دیکھیں : فقہی مضامین اَز ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب مفتی جامعہ مدنیہ لاہور ص ٤٠١ـ٤١١)
(٢) اس کے برخلاف زیادہ تر علماء ومفتیانِ کرام کی رائے یہ ہے کہ شیئر ز کا کاروبار شرعًا شرکت اور مضاربت کے دائرے میں آتا ہے اور اس میں جواز کی چار شرطیں ہیں :
(i) کمپنی کا اصل کاروبار حلال ہو !
(ii) اُس کمپنی کے کچھ منجمد اَثاثے وجود میں آچکے ہوں یعنی رقم صرف نقد کی شکل میں نہ ہو !
(iii) اگر کمیٹی سودی لین دین کرتی ہو تو شیئرز ہولڈروں کو اُس کی سالانہ میٹنگ میں اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہو !
(iv) جب منافع کی تقسیم ہو تو جتنا حصہ نفع سودی ڈیپازٹ سے حاصل ہونے کا یقین یا گمان غالب ہو اُتنا حصہ صدقہ کردیا جائے ! (دیکھئے : فقہی مقالات اَز حضرت مولانا محمد تقی صاحب عثمانی ص١٥١ کتاب الفتاویٰ از حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی ٥/٢٩ـ ٣٠ وغیرہ)
تاہم شیئرز کا مسئلہ ابھی تک علماء ومفتیان کے درمیان زیرِ بحث ہے اور اسٹاک ایکسچینج یا انٹرنیٹ پر بیٹھے بیٹھے شیئرز کی خرید وفروخت کا سلسلہ زیادہ تر مشتبہ صورتوں پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے جب تک پوری تحقیق اور اطمینان نہ کرلیاجائے اس کاروبار میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی پر جرأت نہیں کی جاسکتی اس لیے جو حضرات گہرائی سے شیئرز مارکیٹ کے نشیب وفراز اور اصلیت سے واقف ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ چھان بین کرکے ایسی کمپنیوں کی نشاندہی کریں جن کے شیئرز حرام اور مشتبہ صورتوں سے خالی ہوں تاکہ ناواقف لوگ اس کی روشنی میں اقدام کرسکیں۔
غیر سودی سرمایہ کاری :
اسلام نے اپنی معیشت کا مدار غیر سودی نظام پر رکھا ہے اگر صدقِ دل اور مکمل شرحِ صدر کے ساتھ اس نظام کو دُنیا میں قائم کیا جائے تو ہر اِعتبار سے ٹھوس اور مستحکم معاشی ترقیات حاصل ہوسکتی ہیں ! یہ نظام پوری طرح مروجہ بینکوں کی جگہ لینے کا اہل ہے اور اس کے ذریعہ معاشرہ کے ہر طبقہ کو مالی اِنتفاع کے مواقع بہ آسانی حاصل ہوسکتے ہیں چنانچہ بعض اسلامی ممالک میں اس طرح کی سرمایہ کاری کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے اور اُس کے شاندار نتائج دیکھ کر بعض بین الاقوامی بینک ضمنی طور پر ہی سہی ''غیر سودی وِنڈوز'' کھولنے کا تجربہ کررہے ہیں اور عالمی ماہرین ِمعاشیات اب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ سودی نظام کے بے پناہ استحصال سے نجات پانے اور دُنیا میں معاشی مساوات کی فضاء قائم کرنے کے لیے غیر سودی نظام رائج کرنا ضروری ہے۔
اسلامی نظامِ معیشت کامیاب اور فائدہ مند ہے :
چنانچہ ''مسٹر نریندر کمار'' جن کا شمار ملک کے گنے چنے معاشی تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں میں ہوتا ہے، وہ ایک کثیر الاشاعت ہندی روزنامہ ''لوک مت سماچار'' ناگپور کے ٣٠نومبر ٢٠٠٣ء کے شمارہ میں اپنے حیرت انگیز تجزیہ میں ملک کی معاشی صورتِ حال کا حل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''دُنیا کے تمام ماہرین ِمعاشیات کا ماننا ہے کہ اگر آج کی تاریخ میں اسلام کے نظامِ معیشت کو عملی طور سے نافذ کیا جائے تو قرض میں جکڑی ہوئی اورسراپا قرضوں میں ڈوبتی دُنیا کو بچایا جاسکتا ہے کیونکہ دُنیا کی تمام معاشی تنظیموں نے گہرے غور وفکر کے بعد یہی جائزہ لیا ہے کہ دُوسری جنگ ِعظیم کے بعد دُنیا میں غریبی اور امیری کے درمیان کا جو فاصلہ ہے اُس کی سب سے بنیادی وجہ سود ہے۔ اسلامی طریقۂ زندگی اور معاشی انتظام کی بنیاد اس فلسفہ پر ہے کہ دُنیا میں جتنے بھی لوگ ہیں سب حقوقِ مساوات میں برابر ہیں، اسلام نے دولت کو ایک جگہ جمع رہنے پر روک لگائی ہے، اسلام میں زکوٰة کا نظم واِنتظام اور وراثت کی تقسیم کا اُصول مال ودولت کو ایک جگہ جمع نہیں رہنے دیتا، اس طرح دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی ہے اور دُنیا میں غربت وبھکمری کی بنیادی وجہ دولت اور اسبابِ زندگی کی غیر منصفانہ تقسیم ہی ہے، پھر اسلامی اُصولوں پر جو کاروبار مشارکت ومضاربت کی صورت یا دُوسری شکلوں میں پایا جاتا ہے وہ مغربی تجارت وکاروبار کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ، سادہ، کامیاب اور فائدہ مند ہے کیونکہ سود سے آزاد اور نفع ونقصان میں برابر سرابر کی ساجھے داری سے پیسہ کی قوتِ خرید بڑھ جاتی ہے اور چیزوں کی قیمتوں میں چالیس سے پچاس فیصد کی کمی آجاتی ہے مگر اس سسٹم کو سمجھنے کے لیے پورے اسلام کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے'' ! ! ! ( ماہنامہ ندائے شاہی جنوری٢٠٠٣ئ)
اور ابھی چند روز قبل وزیر اعظم ہندمسٹر من موہن سنگھ نے بھی ہندوستان میں اسلامی بینکاری کے امکان کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے جو بجائے خود ایک بین الاقوامی ماہر معاشیات کی طرف سے اسلامی نظام ِمعیشت کے اعتراف کی تازہ مثال ہے !
غیر سودی سرمایہ کاری کی بنیادی شرط اور اجمالی طریقہ کار :
غیر سودی سرمایہ کاری میں ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر اِس کا رابطہ سودی نظام سے نہ ہو اور اس کے لیے لازم ہوگا کہ ایسا غیرسودی مالیاتی ادارہ براہِ راست کاروبار کرنے یاکسی کاروبار میں نفع نقصان کی بنیاد پر سرمایہ لگانے کا اہل ہو ! اور ہماری معلومات کے مطابق سرِدست ہندوستان کے بینکنگ قوانین کے اعتبار سے کسی بینک کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے اس لیے فی الحال یہاں اسلامی خطوط پر تجارتی بینکاری نظام کا قیام ناممکن ہے، تاہم اگر آئندہ کبھی قانونی اور عملی رُکاوٹیں دُور ہوجائیں تو یہ ادارہ درجِ ذیل صورتوں میں بہ آسانی سرمایہ لگاکر نفع حاصل کرسکتا ہے ! ! !
(١) مرابحۂ مؤجلہ :
یعنی مثلاً کسی شخص کو کوئی مشینری خریدنے کی ضرورت ہے اور وہ غیر سودی بینک کے پاس جاتا ہے تو یہ بینک اُسے قرض دینے کے بجائے مطلوبہ شے کمپنی سے خریدکر نفع کے ساتھ اُسی شخص کے ہاتھ اُدھار بیچ دے اور قسطیں متعین کردے تو اس طرح بینک کو کاروباری نفع بھی حاصل ہوگا اور ضرورت مند کی ضرورت بھی پوری ہوجائے گی !
(٢) اجارہ :
دوسری شکل یہ ہے کہ بینک طالب کو اُس کی ضرورت کی چیز خریدکر دیدے اور اُس سے ماہ بماہ اُس کا مناسب کرایہ وصول کیا کرے اور جب کرایہ مع نفع کے حاصل ہوجائے تو وہ چیز طالب کے نام کردے !
(٣) شیئر زکی خرید وفروخت :
غیر سودی بینک جائز حدود میں رہ کر منافع بخش کمپنیوں کے حصص کی خرید وفروخت میں بھی حصہ لے سکتا ہے (بشرطیکہ شیئرز ایسے ہوں جن پر شرعًا کوئی اشکال نہ ہو) !
(٤) مضاربت / شرکت :
بینک کے کھاتہ دار بینک کے ساتھ یا بینک اپنے کھاتہ داروں کے ساتھ مضاربت یا شرکت کا معاملہ بھی کرسکتا ہے یعنی ایک فریق پیسہ لگائے اور دوسرافریق محنت کرے یا دونوں فریق مشترکہ پیسہ لگائیں اور آپس میں طے شدہ منافع کی تقسیم ہوجائے لیکن یہ واضح ہونا چاہیے کہ مضاربت یا شرکت کی شکل میں عامل کی لاپروائی یا تعدی کے بغیر اصل رأس المال میں اگر نقصان ہوجائے تو اُس کا ذمہ دار سرمایہ کا مالک ہی ہوگا کیونکہ غیر سودی بینکاری میں اولاً نفع نقصان کچھ متعین نہیں ہوتا اور ثانیاً رأس المال کا نقصان سرمایہ دار کو برداشت کرنا پڑتا ہے بشرطیکہ عامل کی طرف سے تعدی نہ پائی گئی ہو،وغیرہ ! !
بہر حال ان تفصیلات کا خلاصہ یہ نکلا کہ ہر ایک مسلمان کے لیے مقاصد سے دُنیا طلبی میں شرعًا کوئی رُکاوٹ نہیں ہے لیکن اُس پر لازم ہے کہ وہ کمانے میں پوری طرح شرعی اُصول کو پیش ِنظر رکھے اور حتی الامکان حرام اور مشتبہ ذرائع سے بچنے کا اہتمام کرے تاکہ اُسے دُنیا وآخرت کی سرخروئی نصیب ہوسکے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شرعی حدود کی رعایت کی توفیق عطافرمائیں، آمین !
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
ماہِ صفر اور نحوست سے متعلق نبوی ہدایات
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَا عَدْ وٰی وَلَا طِیَرَةَ وَلَا ھَامَةَ وَلَا صَفَرَ وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ۔ ١
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک کی بیماری کا (اللہ کے حکم کے بغیر خود بخود ) دوسرے کو لگ جانا ، بدفالی اورنحوست اورصفر(کی نحوست وغیرہ )یہ سب باتیں بے حقیقت ہیں اور مجذوم (کوڑھی ) شخص سے اس طرح بچو اور پرہیز کرو جس طرح شیر سے بچتے ہو''
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَا عَدْوٰی وَلَا ھَامَةَ وَلَا نَوْئَ وَلَا صَفَرَ ۔ ٢
''حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ مرض کا (خود بخود بغیر حکمِ اِلٰہی کے) دُوسرے کو لگ جانا ، اُلّو، ستارہ اور صفر (کی نحوست وغیرہ ) کی کوئی حقیقت نہیں (وہم پرستی کی باتیں ہیں )''
عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَاعَدْوٰی وَلَا غَوْلَ وَلَا صَفَرَ ۔ ٣
'' حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ مرض کا (خود بخود) لگ جانا اورغولِ بیابانی اورصفر( کی نحوست) کی کوئی حقیقت نہیں''
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ اَلْعِیَافَةُ وَالطِّیَرَةُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ۔ ٤
١ بخاری شریف ٢ صحیح مسلم ، ابوداود ٣ صحیح مسلم ٤ ابوداود ، ابنِ ماجہ ، احمد
''رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ پرندوں کی بولی ،اُن کے اُڑنے (یااُن کے نام) سے فال لینا اور کنکری پھینک کر (یا خط کھینچ کر)حال معلوم کرنا شیطانی کام (یا جادُو کی قسم ) ہے ''
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْ تُطُیِّرَلَہ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہ اَوْ سَحَرَ اَوْسُحِّرَلَہ وَمَنْ اَتٰی کَاھِنًا فَصَدَّقَہ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ ۔ ١
'' رسول اللہ ۖ نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو خود بُری فال (بدشگونی ) لے یا جس کے لیے بُری فال لی جائے یا جو خود کہانت کرائے یا جس کے لیے کہانت کرائی جائے یا جو خود جادُو کرے یا جس کے لیے جادُو کیا جائے ، اور جو شخص کسی کاہن کے پاس آیا اور اُس کی باتوں کی تصدیق کی تواُس نے محمد ۖ پر نازل شدہ چیز (قرآن وشریعت ) کا (ایک طرح سے )کفر کیا۔''
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
١ مُسند بزار
بد شگونی اور اِسلامی نقطۂ نظر
( حضرت مولانا مفتی رفیع الدین حنیف صاحب قاسمی ،انڈیا )
''اسلام'' حقائق، صداقتوں اور سچائیوں پر مشتمل دین ہے ! توہمات وخرافات، دُور اذکار باتوں، خیالی و تصوراتی دُنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ! یہ بد شگونی و بدگمانی اور مختلف چیزوں کی نحوست کے تصور و اعتقاد کی بالکل نفی کرتا ہے ! اسلام در اصل ایک اکیلے واحد ویکتا اور ایسی قادرِ مطلق ذات پر یقین واِعتقاد کی تعلیم دیتا ہے جس کے تنہا قبضہ ٔ قدرت اور اُسی کی تنہا ذات کے ساتھ اچھی و بری تقدیر وابستہ ہے، آدمی کی اپنی تدبیریں محض اسباب کے درجے میں ہوتی ہیں اِن سے ہوتا کچھ نہیں، سب کچھ اُس ایک اکیلے اللہ کے کرنے سے ہوتا ہے یہی وہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جس سے شرک و کفر، اوہام و خرافات اور خیالی و تصوراتی دُنیا کی بہت ساری بد اِعتقادیوں کی جڑ کٹ جاتی ہے ! !
آج کل کی مشکل اور دُشوار گزار زندگی میں غیروں کو توچھوڑیے جن کے مذہب کی بنیاد ہی اوہام وخرافات پر ہوتی ہے، دیو مالائی کہانیاں اور عجیب و غریب قصے جس کا جزوِ لازم ہوتے ہیں، غیروں کے ساتھ طویل بود و باش اور رہن سہن کے نتیجے میں خود مسلمانوں میں بھی دنوں، مہینوں، جگہوں، چیزوں اور مختلف رسوم ورواج کی عدم ادائیگی کی شکل میں بے شمار توہمات در آئے ہیں کہ فلاں دن اور فلاں مہینہ منحوس ہوتا ہے، فلاں رُخ پر گھر بنانے یا جائے وقوع یا سمت اور رُخ کے اعتبار سے سعد و نحس کا اِعتقاد کیاجاتا ہے ! مختلف تقریبات بلکہ بچے کی پیدائش سے لے کر اُس کے رشتۂ اَزواج کے بندھن میں بندھ جانے، اُس کے صاحب ِاولاد ہونے پھر اُس کے عمر کے آخری مراحل سے گزر کر اُس کے موت کے منہ میں چلے جانے بلکہ اُس کے مرنے کے بعد اُس کے دفنانے بلکہ اُس کے بعد بھی مختلف رسوم و رواج کا سلسلہ چلتارہتاہے جس کی عدم اَدائیگی کو نحوست کا باعث گردانا جاتا ہے ! ان بے جا تصورات و خیالی توہمات کے ذریعے جانی، مالی، وقتی ہر طرح کی قربانیاں دے کر اپنے آپ کو گراں بار کیاجاتا ہے ! الغرض لوگوں نے ان توہمات و خرافات کی شکل میں زندگی کے مختلف گوشوں میں اس قدر بکھیڑے کھڑے کر دیے ہیں کہ شمار واِحصاء سے باہر، سچ کہا ہے شاعر مشرق علامہ اقبال نے
وہ اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
جہاں ہم نے ایک اکیلے، واحد وتنہا اور قادرِ مطلق ذات کو حقیقی معبود و مسجود اور اُس کی بارگاہ کی حاضری اور اُس کے سامنے جبینِ نیازخم کرنا چھوڑدیا، اُسی کی ذات کے ساتھ نفع و نقصان کی وابستگی کے اعتقاد کو پس ِپشت ڈال دیا، عجیب بھول بھلیوں میں گم ہوگئے، مختلف پتھروں مورتیوں رسموں رواجوں، مختلف اوقات وگھڑیوں اور مہینوں وایام سے اپنی تقدیر وابستہ کر بیٹھے اور اپنی منفعت و مضرت کو اُن سے منسوب کر دیا، ایک اکیلے اللہ کو راضی کرنا کتنا آسان تھا، اس سے بڑھ کر بے زبان، بے عقل جانور، کتے، بلیوں، طوطوں، اُلوؤں اور کو ؤں تک سے اپنے نفع و نقصان کااعتقاد یہ کس قدر نادانی اور بچکانی اور گئی گزری ہوئی حرکت ہو سکتی ہے ! اگر ہم ایک اکیلے اللہ کو حقیقی نافع و ضار سمجھ کر اُس سے اپنی تقدیر کا بننا و بگڑنا وابستہ کرتے اور اُسی یکتا و تنہا ذات کو اپنی مقدس پیشانی کو جھکانے کے لیے چن لیتے تو آج کا یہ انسان اس قدر حیران و سر گرداں نہ ہوتا کہ ہر چھوٹی بڑی چیز کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے بچ جاتا !
زمانہ ٔ جاہلیت کی بد شگونیاں :
زمانہ ٔ جاہلیت میں بھی اسلام کی آمد سے قبل لوگوںمیں مختلف چیزوں سے شگون لینے کا رواج تھا
(١) ایک طریقہ یہ تھا کہ خانۂ کعبہ میں تیر رکھے ہوئے ہوتے جن میں سے کچھ پر ''لا'' لکھا ہوتا یعنی یہ کام کرنا درست نہیں اور بعض میں ''نعم'' لکھا ہوتا یعنی یہ کام کرنا درست ہے ! وہ اس سے فال نکالتے اور اُسی کے مطابق عمل کرتے یا جب کسی کام سے نکلناہوتا درخت پر بیٹھے ہوئے کسی پرندے کو اُڑا کر دیکھتے کہ یہ جانور کس سمت اُڑا، اگر دائیں جانب کو اُڑ گیا تو اُسے مبارک اور سعد جانتے تھے کہ جس کام کے لیے ہم نکلے ہیں وہ کام ہوجائے گا اوراگر بائیں جانب کواُڑ گیا تو اس کومنحوس اور نا مبارک سمجھتے ! حضور اکرم ۖ نے ان سب چیزوں کی نفی فرمادی اور فرمایا اَقِرُّوا الطُّیُوْرَ عَلٰی مَکَانَتِھَا پرندوں کو اپنی جگہ بیٹھے رہنے دو، اِن کو خواہ مخواہ اُڑا کر فال نہ لو، اس حدیث میں نبی کریم ۖ نے مختلف اِعتقاداتِ بد اور زمانہ ٔ جاہلیت کے مختلف توہمات اور بدشگونیوں کا رَد فرمایا دیا ہے ! ! !
(٢) اور فرمایا لَا عَدْوٰی تعدیہ کوئی چیز نہیں ہوتی ! یعنی زمانہ ٔ جاہلیت کا ایک تصوریہ بھی تھا کہ بیماریاں ایک دُوسرے کو متعدی ہوتی ہیں، ایک دُوسرے کو منتقل ہوتی ہیں، حضور اکرم ۖ نے اس اِعتقادِ بد کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ تعدیہ کوئی چیز نہیں ہے، اس تعدیہ کے متعلق ایک دیہاتی نے جب آنحضرت ۖ سے یہ دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ۖ اُونٹ ریتیلے علاقوں میں بالکل ہرنوں کے مانند تیز و طرار ہوتے ہیں کہ کوئی عارضہ یا کوئی بیماری اُنہیں نہیں ہوتی اُن میں ایک خارش زدہ اُونٹ آکر گُھل مِل جاتا ہے وہ سب کو خارش زدہ کر دیتا ہے،یہ تو تعدیہ ہوا،اِس پرنبی کرم ۖ نے فرمایا فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ پہلے اُونٹ کو خارش کہاں سے ہوئی ؟ یعنی جب پہلے اُونٹ کی خارش من جانب اللہ ہے تو اِن تمام کا خارش زدہ ہونا بھی اُسی کی جانب سے ہے۔ ٢
(٣) اور فرمایا وَلَا ھَامَةَ ہامہ بھی کوئی چیز نہیں ہے، '' ھَامَةَ '' کہتے ہیں ''اُلو'' کو، اہلِ عرب کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ مردار کی ہڈیاں جب بالکل بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں تو وہ ''اُلو'' کی شکل اختیار کر کے باہر نکل آتی ہیں اور جب تک قاتل سے بدلہ نہیں لیا جاتا اُس کے گھر پر اُس کی آمدورفت بر قرار رہتی ہے ! زمانہ ٔ جاہلیت کی طرح موجودہ دور میں بھی ''اُلو'' کو منحوس پرندہ تصور کیا جاتا ہے، اس کے گھر پر بیٹھنے کو مصائب کی آمد کا اعلان تصور کیا جاتا ہے، حضور اکرم ۖ نے ان تمام اِعتقادات اور توہمات کا اِنکار کردیا ٣ اس طرح کے بعض ملتے جلتے اعتقادات آج بھی پائے جاتے ہیں کہ شب ِمعراج، شب ِبراء ت اور شب ِقدر اور عید و غیرہ میں رُوحیں اپنے گھر آتی ہیں، یہ سب توہمات ہیں !
(٤) اور آنحضرت ۖ نے یہ بھی فرمایا وَلَا غَوْلَ بھوت پریت کا کوئی وجود نہیں، یعنی اہلِ عرب کا یہ تصور بھی تھا کہ جنگلوں اور بیابانوں میں اِنسان کو بھوت پریت نظر آتے ہیں جو مختلف شکلیں
دھارتے رہتے ہیں اور لوگوں کو گم کردہ راہ کردیتے ہیں اور اُن کو بسا اَوقات جان سے بھی ماردیتے ہیں،
١ مرقاة المفاتیح ٢ صحیح البخاری کتاب الطب رقم الحدیث ٥٧١٧ ٣ مرقاة المفاتیح
اس طرح کے اعتقادات اس دور میں دیہاتوں وغیرہ میں بہت پائے جاتے ہیں، نبی اکرم ۖ نے ان سب خرافات کااِنکار کردیا ! ! ١
(٥) اور آنحضرت ۖ نے یہ بھی فرمایا وَلَا نَوْئَ ایک ستارے کا غروب ہونا اور دُوسرے کا طلوع ہونا یا چاند کی مختلف منزلیں مراد ہیں، اہلِ عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ بارش کو چاند کے مختلف برج یا منازل کے ساتھ منسوب کرتے تھے ،چاند کے فلاں برج یا منزل میں ہونے سے بارش ہوتی ہے یا فلاں ستارے کے طلوع ہونے یا غروب ہونے سے بارش ہوتی ہے یعنی وہ بارش کی نسبت بجائے اللہ کے ان ستاروں کی جانب کردیتے تھے ، آپ نے اس کا اِنکار فرما دیا ! ! ٢
اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ۖ نے حدیبیہ کے موقع پر ایک دفعہ فجر کی نماز پڑھائی ،فجر سے پہلے بارش ہوچکی تھی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا :
''کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا : تو اُن لوگوں نے کہا اللہ اور اُس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، فرمایا کہ ''اللہ عز و جل نے فرمایا میرے بندوں میں سے کچھ نے تو حالت اِیمان میں صبح کی اور کچھ نے کفرو شرک کی حالت میں صبح کی ! جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ کے فضل و رحمت سے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر اِیمان لائے اور اُنہوں نے ستاروں کا اِنکار کیا اور جنہوں نے یہ کہا کہ فلاں ستارے کے فلاں برج میں ہونے سے بارش ہوئی تو اُس نے میرا اِنکار کیا اور ستاروں کے ساتھ اپنا ایمان وابستہ کیا وَاَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْئِ کَذَا وَ کَذَا فَذٰلِکَ کَافِر بِیْ مُوْمِن بِالْکَوْکَبِ '' ٣
ستاروں اور سیاروں کی گردش اور اُن کا طلوع و غروب ہونا بارش ہونے یا نہ ہونے کا ایک ظاہری سبب تو ہوسکتے ہیں لیکن مؤثر حقیقی ہر گز نہیں ہوسکتے ! ! مؤثر حقیقی اور قادرِ مطلق محض اللہ جل شانہ کی ذات ہے ! ! ! ٤
١ اشِعةُ اللمعات ٢ سُنن ابو داود : ٣٩١٢ ٣ صحیح مسلم ص ١٢٥ ٤ معارف القرآن
عصر حاضر کی بدشگونیاں اور توہمات :
یہ زمانہ ٔ جاہلیت میں بدفالی اور توہم پرستی کا ذکر تھا، عرب کے جاہلوں کی طرح آج کل بھی نام نہاد مسلمان طرح طرح کی بد گمانیوں اور بد شگونیوں میں مبتلا ہیں خوصاً عورتوں میں اِس قسم کی باتیں مشہور ہیں، اگر کوئی شخص کام کو نکلا اور بلی یا عورت سامنے سے گزر گئی یا کسی کو چھینک آگئی تو سمجھتے ہیں کہ کام نہیں ہوگا ! جوتی پر جوتی چڑ گئی توکہتے ہیں کہ سفر در پیش ہوگا ! آنکھ پھڑکنے لگی تو فلاں بات ہوگئی ! گھر پر کوے کی چیخ و پکار کو مہمان کی آمد کا اِعلان ! اور اُلو کی آمد کو نقصان کا باعث تصور کیا جاتا ہے ! ہچکیوں کے آنے پر یہ کہا جاتا ہے کہ کسی قریبی عزیز نے یاد کر لیا ! یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ہتھیلی میں خارش ہونے سے مال ملتا ہے ! اور تلوے میں خارش ہونے سے سفر در پیش ہوتاہے ! اس طرح روزمرہ کی زندگی میں بے شمار تصورات و خیالات ہیں جو رات دِن لوگوں سے سننے میں آتے ہیں، عجیب توہم پرستی کی دُنیا ہے حالانکہ رسول اللہ ۖ کا صاف اور واضح اِر شاد ہے اَلطِّیَرةُ شِرْک ١ بدشگونی لینا شرک ہے ! ! !
آج کل جانوروں سے بھی قسمت کے اَحوال بتائے جاتے ہیں ! بہت سے لوگ لفافوں میں کاغذ بھرے ہوئے کسی چالو روڈ یا گاؤں اور دیہاتوں میں نظر آتے ہیں، طوطا یا مینا یا کوئی اور چڑیا پنجرے میں بند رکھتے ہیں اور گزرنے والے جاہل اُن سے پوچھتے ہیں کہ آئندہ ہم کس حال سے گزریں گے اورہمارا فلاں کام ہوگا یا نہیں ؟ اس پر جانور رکھنے والا آدمی پرندے کے منہ میں کوئی دانہ وغیرہ دیتا ہے اور وہ پرندہ کوئی بھی لفافہ کھینچ کر لاتا ہے پرندہ والا آدمی اُس میں سے کاغذ نکال کر پڑھتا ہے اور دریافت کرنے والے کی قسمت کا فیصلہ سناتاہے ! ! یا آج کل بہت سارے رسالے اور میگزین نکلتے ہیں جس میں حروفِ تہجی کے اعتبار سے ''الف'' سے لے کر ''ی'' تک تمام حروف خانوں میں لکھے ہوتے ہیں جس حرف سے نام شروع ہوتا ہے نیچے تمام حروف کے اعتبار سے اُس کے احوالِ زندگی اچھی یا بری تقدیر لکھی ہوتی ہے، اُس کو پڑھ کر اَحوال اور آئندہ پیش آنے والی خوشی و مسرت کی گھڑیوں یا مصائب
١ سُنن ابی داود کتاب الطب باب فی الطیرة رقم الحدیث ٣٩١٠
کے لمحوں کو معلوم کیا جاتاہے یا خانوں میں مختلف حروف یا ستاروں کے نام لکھے ہوتے ہیں ،آنکھ بند کرکے اُن پر اُنگلی رکھنے کو کہا جاتا ہے جس پر اُنگلی پڑتی ہے اُس کے اعتبار سے نیچے اُس حرف کے سامنے لکھی ہوئی پیشین گوئیاں پڑھ کر اپنے احوال معلوم کرتے ہیں ! یہ سب سراسر جہالت اور گمراہی ہے بلکہ آج کے مشینی دور میں قسمت کے احوال جاننے کے لیے مشین بھی تیار ہوگئی ہے، بس اَڈوں، ریلوے اسٹیشنوں پر دیکھا ہے کہ دل کے احوال بتانے والی کوئی مشین ہوتی ہے جو اِنسانوں کے دل کے احوال کا علم دیتی ہے، لوگ کان میں لگانے والے آلے کے ذریعے اُس مشین کے واسطے سے اپنے احوالِ قلب کو سنتے ہیں اور وہاں لوگوں کی بھیڑ اور ایک تانتا لگا ہوا ہوتاہے ! ! !
یاد رکھیے ! غیب کا علم اللہ عز وجل کے سوا کوئی نہیں جانتا ، خود طوطا، مینا لے کر بیٹھنے والے کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کل کیا کرے گا ؟ اور بے چارے کی قسمت کا علم اُس کو ہوتا تو اِس چالو روڈ پر بیٹھ کر یہ چالو کام کرتا ہوا نہیں ہوتا، کوئی شخص نہیں جانتا وہ کل کیا کرے گا ؟ اور نہ ایک دُوسرے کو اس بارے میں کوئی علم ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے ( وَمَا تَدْرِیْ نَفْس مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًا) ١ ''کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کو کیا کرے گا'' ؟ نیز ارشادِ خدا وندی ہے :
( قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ) ٢
''اے نبی ۖ آپ فرماد یجیے کہ جولوگ آسمان و زمین میں ہیں وہ غیب کو نہیں جانتے، غیب کو صرف اللہ ہی جانتا ہے ''
یہ عجیب بات ہے کہ آدمی توخود اپنا حال نہ جانے اور غیر عاقل جانور کو پتہ چل جائے کہ اُس کی قسمت میں کیا ہے ! ! ایک حدیث میں حضور اکرم ۖ کا ارشادِ گرامی ہے کہ :
مَنْ اَتَی عَرَّافًا فَسَاَلَہ عَنْ شَیْئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہ صَلٰوة اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ۔ ٣
''جو شخص کسی ایسے آدمی کے پاس گیا جو غیب کی باتیں بتاتاہو پھر اُس سے کچھ بات پوچھ لی تواُس کی نماز چالیس دن تک قبول نہ ہوگی ''
١ سُورہ لقمان : ٣٤ ٢ سُورة النمل : ٦٥ ٣ صحیح مسلم کتاب السلام رقم الحدیث ٢٢٣٠
ایک حدیث میں اِرشادِ نبوی ہے کہ :
''جو کوئی کسی ایسے شخص کے پاس گیا جو غیب کی خبریں بتاتا ہو اور اُس کے غیب کی تصدیق کردی تو اُس چیز سے بری ہوگیا جو محمد ۖ پر نازل ہوئی'' ١
ماہِ صفر کی نحوست کا تصور :
بعض لوگ صفر کے مہینے کے تعلق سے یہ نظریہ اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس مہینے میں مصیبتیں اور بلائیں نازل ہوتی ہیں، اسلام سے قبل زمانہ ٔ جاہلیت میں بھی لوگ مختلف قسم کے توہمات وسوسوں اور غلط عقائد میں گھرے ہوئے تھے، حضور اکرم ۖ نے صفر کے مہینے کی نحوست کا اِنکار کرتے ہوئے فرمایا وَلَا صَفَرَ ٢ تیرہ تیزی کی کوئی حقیقت نہیں ! ! عرب خصوصًا صفر کے ابتدائی تیرہ دنوں اور عمومًا پورے مہینے کو منحوس سمجھتے تھے ! زمانہ ٔ جاہلیت میں مثلاً اِس میں عقد ِنکاح ،پیغامِ نکاح اور سفر کرنے کو منحوس ، نامبارک اور نقصان کا باعث سمجھا جاتا تھا ! حضور اکرم ۖ نے زمانہ ٔ جاہلیت کے اس اعتقاد کی پُر زور تردید فرمائی کہ صفر میں نحوست کا اِعتقاد سرے سے غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ دن، مہینہ یا تاریخ منحوس نہیں ہوتے کہ فلاں مہینے میں فلاں تاریخ میں فلاں دن میں شادی کے اِنعقاد کو با برکت تصور کیاجائے اور بعض دنوں جیسا کہ مشہورہے کہ ''تین ،تیرہ، نو ،اٹھارہ'' یہ منحوس دن تصور کیے جاتے ہیں بلکہ اس تعبیر ہی کو بربادی اور تباہی کے معنی میں لیاجاتا ہے، یہ سب خرافات اور خود ساختہ اور بناوٹی باتیں ہیں، زمانے اور دنوں میں نحوست نہیں ہوتی نحوست بندوں کے اعمال واَفعال کے ساتھ وابستہ ہے ! جس وقت یا دن یالمحہ کو بندے نے اللہ کی یاد اور اُس کی عبادت میں گزارا وہ وقت تو اُس کے حق میں مبارک ہے ! ! اور جس وقت کو بد عملی، گناہوں اور اللہ عز و جل کی حکم عدولیوں میں گزار دیا تووہ وقت اُس کے لیے منحوس ہے ! ! حقیقت میں مبارک عبادات ہیں اور منحوس معصیات ہیں ! ! الغرض منحوس ہمارے برے اعمال اور غیر اسلامی عقائد ہیں ! ! !
١ سُنن ابوداود ٢ سُنن ترمذی ابواب القدر رقم الحدیث ٢٤١٩
اگرکسی مسلمان کو کوئی ایسی چیز پیش آجائے جس سے خواہ مخواہ ذہن میں بدخیالی اور بد فالی کا تصور آتاہو تو جس کام سے نکلاہے اُس سے نہ رُکے اور یہ دُعا پڑھے :
اَللّٰہُمَّ لاَ یَأْتِیْ بِالْحَسَنَاتِ اِلاَّ اَنْتَ وَلَا یَدْفَعُ السَّیِّئَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَلاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِکَ ۔ ١
'' اے اللہ ! اچھائیوں کوتیرے سوا کوئی نہیں لاتا اور بری چیزوں کوتیرے سوا کوئی دُور نہیں کرتا اور گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت صرف اللہ ہی سے ملتی ہے''
جامعہ مدنیہ جدید کی ڈاکومنٹری
DOCUMENTARY OF JAMIA MADNIA JADEED
جامعہ مدنیہ جدید کی صرف آٹھ منٹ پر مشتمل مختصر مگر جامع ڈاکومنٹری تیار کی جاچکی ہے جس میں جامعہ کا مختصر تعارف اور ترقیاتی و تعمیراتی منصوبہ جات دکھائے گئے ہیں قارئین ِکرام درجِ ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں
١ سُنن ابودود کتاب الطب رقم الحدیث ٣٩١٩
تعلیم النساء قسط : ١
( اَز اِفادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
تعلیمِ نسواں کی ضرورت :
تجربہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ مردوں میں علماء کا پایا جانا مستورات کی دینی ضروریات کے لیے کافی وافی نہیں، دو وجہ سے :اوّلاً پردہ کے سبب سب عورتوں کا علماء کے پاس جانا تقریبًا ناممکن ہے اور گھر کے مردوں کو اگر واسطہ بنایا جائے تو بعض مستورات کو گھر کے ایسے مرد بھی میسر نہیں ہوتے اور بعض جگہ خود مردوں ہی کو اپنے دین کا اہتمام نہیں ہوتا تو دُوسروں کے لیے سوال کرنے کا کیا اہتمام کریں گے پس ایسی عورتوں کو دین کی تحقیق دُشوار ہے اور اگر اتفاق سے کسی کی رسائی بھی ہو گئی یا کسی کے گھر میں باپ، بیٹا ،بھائی وغیرہ عالِم ہیں تب بھی بعض مسائل عورتیں اِن مردوں سے نہیں پوچھ سکتیں ایسی بے تکلفی شوہر سے ہوتی ہے تو سب شوہروں کا ایسا ہونا عادةً ناممکن ہے تو عورتوں کی عام احتیاج رفع ہونے کی بجز اِس کے کوئی صورت نہیں کہ کچھ عورتیں پڑھی ہوئی ہوں اور عام مستورات اُن سے اپنے دین کی ہر قسم کی تحقیقات کیا کریں پس کچھ عورتوں کو متعارف طریقہ سے تعلیم دینا واجب ہوا کیونکہ واجب کا مقدمہ (ذریعہ) واجب ہوتا ہے گو بالغیر سہی۔ (اصلاحِ انقلاب ج ١ ص ٢٦٥)
مردوں کے مقابلہ میں لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم زیادہ ضروری ہے :
اولاد کی اصلاح کے لیے عورتوں کی تعلیم کا اہتمام نہایت ضروری ہے کیونکہ عورتوں کی اصلاح نہ ہونے کا اثر مردوں پر بھی پڑتا ہے کیونکہ بچے اکثر ماؤں کی گود میں پلتے ہیں جو مرد ہونے والے ہیں اور اُن پر ماؤں کے اخلاق وعادات کا بڑا اَثر ہوتا ہے حتی کہ حکماء کا قول ہے کہ جس عمر میں بچہ عقلِ ہیولانی کے درجہ سے نکل جاتا ہے تو گو وہ اُس وقت بات نہ کر سکے مگر اُس کے دماغ میں ہر بات ہر فعل منقش ہوجاتا ہے اس لیے اُس کے سامنے کوئی بات بھی بے جا اور نا زیبا نہ کرنی چاہیے بلکہ بعض حکماء نے یہ لکھا ہے کہ بچہ جس وقت ماں کے پیٹ میں جنین ہوتا ہے اُس وقت بھی ماں کے افعال کا اَثر اُس پر پڑتاہے اس لیے لڑکیوں کی تعلیم و اِصلاح زیادہ ضروری ہے کیونکہ لڑکے تو بعد میں ماؤں کے قبضہ سے نکل کر اُستاد اور مشائخ کی صحبت میں بھی پہنچ جاتے ہیں جس سے اُن کی اصلاح ہوجاتی ہے ،لڑکیوں کو یہ بات بھی میسر نہیں ہوتی وہ ہر وقت گھر میں رہتی ہیں اور اُن کے لیے یہی اَسلم (بہتر) ہے ! !
ضرورت اس کی ہے کہ عورتوں میں بھی علمِ دین کی جاننے والیاں کچھ ہوں تو اُن کے ذریعہ سے عورتوں کی اصلاح باآسانی ہوجائے گی کیونکہ مردوں کے عالِم ہونے سے عورتوں کی پوری طرح اصلاح نہیں ہوتی ! ! ١ (لڑکیوں اور عورتوں کی اصلاح نہ ہونے میں) سارا قصور اللہ رحم کرے ماں باپ کا ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام و اہتمام بالکل نہیں کرتے ! ! ٢
عورتوں کو علمِ دین پڑھانے کا فائدہ :
میں بقسم کہتا ہوں کہ عورتوں کو دین کی تعلیم دے کر تو دیکھو اِس سے اُن میں عقل و فہم و سلیقہ اور دُنیا کا اِنتظام بھی کس قدر پیدا ہوتا ہے، جن عورتوں کو دین کی تعلیم حاصل ہے عقل و فہم میں وہ عورتیں کبھی بھی اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتیں جوایم اے میمن ہو رہی ہیں، ہاں بے حیائی میں ضرور اُن سے بڑھ جائیں گی اور باتیں بنانے میں بھی انگریزی پڑھنے والیاں شاید بڑھ جائیں گی مگر عقل کی بات دیندار عورت ہی کی زبان سے زیادہ نکلے گی ! شو ہر صاحب بیوی میں عیب نکالتے رہتے ہیں مگر اُس کی تعلیم کا تو اہتمام کریں ! ! ٣ دینی تعلیم اور جدید تعلیم کا موازنہ :
جس کا دل چاہے تجربہ کر کے دیکھ لے کہ علمِ دین کے برابر دُنیا بھر میں کوئی دستور العمل اور کوئی تعلیم شائستگی اور تہذیب وسلیقہ نہیں سکھلاتی چنانچہ ایک وہ شخص لیجئے جس پر علمِ دین نے پورا اَثر کیا ہو اور ایک شخص وہ لیجئے جس پر جدید تہذیب نے پورااَثر کیا ہو پھر دونوں کے اخلاق اور معاشرت اور معاملہ کا موازنہ کیجئے تو آسمان و زمین کا تفاوت پائیں گے البتہ اگر تصنع و تکلف کا نام کسی نے تہذیب رکھ لیا ہو
١ التبلیغ واعظ الاستماع والاتباع ج ٤ ص ١٦٤، ٦٦ا ٢ اَلتبلیغ ج ٧ ص ٦٢ ٣ التبلیغ ص ٣١
تواُس کی یہی غلطی ہوگی کہ ایک شے کا مفہوم اُس نے غلط ٹھہرایا اور اگر کسی کے ذہن میں اُس وقت کوئی دیندار ایسا ہو جس میں حقیقی تہذیب کی کمی ہو اُس کی وجہ یہ ہوگی کہ اُس نے علومِ دینیہ کا پورا اَثر نہیں لیا ١
دینی تعلیم نہ ہونے کا نقصان اور اَنجام :
اب دینی تعلیم کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہے اور وہ تعلیم اختیار کر لی ہے جو مضر ہے جو مفید اور ضروری تعلیم تھی اُس میں تو کمی ہوجاتی ہے بلکہ ناپید ہوجاتی ہے ! اس تعلیم کے نہ ہونے کے یہ نتائج ہیں کہ اخلاق درست نہیں ہوتے اور باوجود یکہ عورتوں میں محبت اور جاں نثاری اور اِیثار کا مادّہ بہت زیادہ ہے پھر بھی خاوند سے اُن کی نہیں بنتی کیونکہ مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اُن میں پھوہڑپن اور بے باکی موجود ہوتی ہے جو کچھ زبان میں آجائے بے دھڑک بک ڈالتی ہیں جس سے خاوند کو تکلیف پہنچتی ہے اور خانہ جنگیاں پیدا ہوجاتی ہیں زندگی تلخ ہوجاتی ہے ! ! ٢
تعلیمِ نسواں میں مفاسد کا شبہ اور اُس کا جواب :
بعض حضرات کی تو یہ رائے ہے کہ عورتوں کو تعلیم مضر ہے (کیونکہ بہت سے مفاسد کا ذریعہ اور پیش خیمہ ہے جس کا سدِّ باب ضروری ہے ) مگر اِس کی ایسی مثال ہے کہ کسی نے اپنے گھروالوں کو کھانا کھلایا اتفاق سے بیوی بچہ سب کو ہیضہ ہوگیا، اب آپ نے رائے قائم کی کہ کھانے پینے سے تو ہیضہ ہوجاتا ہے اس لیے کھانا پینا سب بند اور دل میں ٹھان لی کہ کھانے پینے کے برابر کوئی چیز بری نہیں ! سو تعلیم سے اگر کسی کو ضرر پہنچ گیا تویہ تعلیم کی بد تدبیری سے ہے نہ کہ تعلیم سے ! ! ٣
(اگر مفاسد کا اعتبار کیا جائے تو) اس میں عورتوں کی کیا تخصیص ہے اگر مردوں کو پیش آئیں وہ بھی ایسے ہی ہوں گے تو پھر کیا وجہ ہے کہ عورتوں کو تعلیم سے روکا جائے اور مردوں کو تعلیم میں ہر طرح کی آزادی دی جائے بلکہ اہتمام کیا جائے۔ ٤
مردوں پر عورتوں کی تعلیم ضروری اور واجب ہے :
مرد عورتوں کی تعلیم اپنے ذمہ ہی نہیں سمجھتے (حالانکہ) آپ حضرات کے ذمہ اُن کی تعلیم بھی
١ اصلاحِ انقلاب ص ٢٧٠ ٢ اَلتبلیغ وعظ کساء النساء ج ٧ ص ٨٢ ٣ حقوق الزوجین ص ٣٠٦ ٤ اصلاحِ انقلاب ص ٢٦٨
ضروری ہے، مردوں پر واجب ہے کہ اُن کو اَحکام بتلائیں حدیث میں ہے کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْل عَنْ رَعِیَّتِہ ١ یعنی تم سب ذمہ دار ہو تم سے قیامت میں تمہاری ذمہ داری کی چیزوں سے سوال کیا جائے گا ! مرد اپنے خاندان میں اپنے متعلقین میں حاکم ہے، قیامت میں پوچھا جائے گا کہ محکومین کا کیا حق ادا کیا ؟ محض نان نفقہ ہی سے حق ادا نہیں ہوتا کیونکہ یہ کھانا پینا دُنیا کی زندگی تک ہے آگے کچھ بھی نہیں اس لیے صرف اس پر اِکتفا کرنے سے حق اَدا نہیں ہوتا چنانچہ حق تعالیٰ نے صاف لفظوں میں ارشاد فرمایا ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا ) ٢ ''اے اِیمان والو ! اپنی جانوں کو اور اپنے اہل کو دوزخ سے بچاؤ ''یعنی اُن کی تعلیم کرو، حقوق اِلٰہی سکھلاؤ ،اُن سے تعمیل بھی کراؤ تو گھروالوں کو دوزخ سے بچانے کا معنی یہی ہے کہ اُن کو تنبیہ کرو ! بعض لوگ بتلا تو دیتے ہیں مگر ڈھیل چھوڑ دیتے ہیں کہتے ہیں کہ دس دفعہ تو کہہ دیا ،نہ مانیں تو ہم کیا کریں ؟ سچ تو یہ ہے کہ مردوں نے بھی دین کی ضرورت کو ضرورت نہیں سمجھا ،کھانا ضروری ،فیشن ضروری، ناموری ضروری، مگر غیر ضروری ہے تو دین ! دُنیا کی ذرا سی مضرت کا خیال ہوتا ہے اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر دین کی مضرت پہنچ گئی تو کیسا بڑا نقصان ہوگا ! ! پھر اگر وہ مضرت ایمان کی حدمیں ہے تب تو چھٹکارا بھی ہوجائے گا مگر نقصان (عذاب) پھر بھی ہوگا دائمی نہ ہو، اور اگر اِیمان کی حد سے بھی نکل گئی تب تو ہمیشہ کا مرنا ہو گیا اور تعجب ہے کہ دُنیا کی باتوں سے تو بے فکری نہیں ہوتی مگر دین کی باتوں سے کس طرح بے فکری ہوجاتی ہے ! ٣
(خلاصہ یہ کہ حدیث کے بموجب) بڑا چھوٹے کا نگران ہوتا ہے اور اُس سے باز پرس ہوگی تو جس طرح ممکن ہو عورتوں کو دین مرد خود سکھلادیں یا کوئی بی بی دُوسری بیبیوں کو سکھادے اور سکھانے کے ساتھ اُن کا کاربند بھی بنادے اس کے بغیر براء ت نہیں ہوسکتی ! ! !
١ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٣٦٨٥ ٢ سُورة التحریم : ٦
٣ حقوق الزوجین ص ٣٥ ، دعواتِ عبدیت ص ١٧٠
عورتوں کو دینی تعلیم نہ دینا ظلم ہے :
اب تو حالت یہ ہے کہ گھر جا کر سب سے پہلے سوال یہ کرتے ہیں کہ کھانا پکایا یا نہیں ؟ اگر کھانا تیار ہوا اور نمک تیز ہوگیا تو اب گھر والوں پر نزلہ اُتر رہا ہے ! غرض آج کل مردوں کو نہ عورتوں کے دین کی فکر ہے، نہ دُنیا کی فکر ہے بس اپنی راحت کی فکر ہے ! رات دن عورتوں سے اپنی خدمت لیتے رہتے ہیں، کبھی چولہے کی اور کبھی کپڑا سینے کی ! نہ اُن کے دین کی فکر، نہ دُنیا کی، نہ آرام کی، نہ راحت کی، اُن کو جاہل بنا رکھا ہے ! یاد رکھو !یہ بڑا ظلم ہے جو تم نے عورتوں پر کر رکھا ہے، ہمیں چاہیے کہ خود بھی کامل بنیں اور عورتوں کو بھی کامل بنائیں ! جس کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ پہلے علمِ دین حاصل کرو پھر عمل کا اہتمام کرو ! ! ١
حدیث طَلَبُ الْعِلْمِ :
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَة عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ دینی تعلیم کے واسطے زیادہ صریح تھی مگر اِس میں مُسْلِمَةٍ کی زیادتی ثابت نہیں بلکہ ناواقفوں نے اپنی طرف سے لفظ مُسْلِمَةٍ حدیث میں اضافہ کر دیاہے گومعنیٰ صحیح ہے مگر لفظًا صحیح نہیں ! تو میں نے اس مسئلہ میں عورتوں کی تعلیم کو عمومِ آیت سے مستنبط کرنا چاہا کیونکہ آیات واَحادیث کا عموم و خصوص دونوں حجت ہیں ! ! ٢
عورتوں کو عربی درسِ نظامی کی تعلیم :
میں عورتوں کی تعلیم کا مخالف نہیں مگر یہ کہتا ہوں کہ تم اُن کو مذہبی تعلیم دو اور زیادہ اہمیت ہو توعربی علوم کی تعلیم دو اور اِس کے لیے زیادہ ہمت کی قید اِس لیے ہے کہ عربی کے لیے زیادہ فہم اور زیادہ محنت کی ضرورت ہے ٣ در حقیقت بات یہی ہے کہ مرد تمام علوم کے جامع ہو سکتے ہیں عورتیں (عادةً) نہیں ہو سکتیں جامعیت کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے جو عورتوں میں نہیں ہے مگر آج کل سب کو عقل کا ہیضہ ہو رہا ہے، آزادی کا زمانہ ہے ہر ایک خود مختار ہے چنانچہ عورتیں بھی کسی بات میں مردوں سے پیچھے رہنا نہیںچاہتیں ہر علم و فن کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں تصنیفیں کرتی ہیں اخبارات میں مضامین بھیجتی ہیں
١ اَلتبلیغ وعظ الاستماع والاتباع ج ٤ ص ٢٣ ٢ اَلتبلیغ ج ٤ ص ٢٧٦ ٣ اَلتبلیغ ج ٤ ص ٢٢٦
یہ قاعدہ کلیہ صحیح نہیں کہ ہر علم مفید ہے اور نہ ہر شخص میں ہر علم حاصل کرنے کا حوصلہ ہے جامعیت (یعنی تمام علوم منقول و معقول منطق فلسفہ وغیرہ) مردوں کا حوصلہ ہے عورتوں کو اُن کی ریس کرنا حوصلہ سے باہر بات کرناہے ! اس جامعیت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو صفات عورتوں میں ہونی چاہئیں وہ بھی باقی نہیں رہیں گی چنانچہ رات دن اس کا تجربہ ہوتا جاتا ہے ! ! ١
عورتوں کے لیے (بہتر یہ ہے کہ ) ضروری نصاب کے بعد اگر طبیعت میں قابلیت دیکھیں تو عربی کی طرف متوجہ کر دیں تاکہ قرآن و حدیث و فقہ اصلی زبان میں سمجھنے کے قابل ہوجائیں اور قرآن کا خالی ترجمہ جو بعض لڑکیاں پڑھتی ہیں میرے خیال میں سمجھنے میں زیادہ غلطی کرتی ہیں اس لیے اکثر کے لیے مناسب نہیں ! ! ٢
لڑکیوں کو حفظ ِقرآن کی تعلیم :
لڑکا ہو یا لڑکی جب سیانے ہوجائیں اُن کو علمِ دین پڑھائیں، قرآن شریف بڑی چیز ہے کسی حالت میں ترک نہ کرنا چاہیے، یہ خیال نہ کریں کہ وقت ضائع ہوگا اگر قرآن شریف پورا نہ ہو آدھا ہی ہو ،یہ بھی نہ ہوآ خر کی طرف ایک ہی منزل پڑھادی جائے اس میں چھوٹی چھوٹی سورتیںنماز میں کام آئیں گی، ایک منزل پڑھانے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے۔
قرآن شریف کی یہ بھی برکت ہے کہ حافظ ِ قرآن کا دماغ دُوسرے علوم کے لیے ایسا مناسب ہوجاتا ہے کہ دُوسرے کا نہیں ہوتا، یہ رات دن کا تجربہ ہے ! ! ٣
عورتوں کو کون سے علوم اور کتابیں پڑھائی جائیں :
میں کہتا ہوں کہ اِن کو مذہبی تعلیم دیجیے، فقہ پڑھائیے، تصوف پڑھائیے ،قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھائیے جس سے اُن کی ظاہری وباطنی اصلاح ہو ! عورتوں کے لیے تو بس ایسی کتابیں مناسب ہیں جن سے خدا کا خوف ،جنت کی طمع اور شوق، دوزخ سے ڈراور خوف پیدا ہو ! اس کا اَثر عورتوں پر بہت اچھا ہوتا ہے اس لیے میں پھر کہتا ہوں کہ عورتوں کو وہ تعلیم جس کو پرانی تعلیم کہا جاتا ہے بقدر ِکفایت ضرور دینا چاہیے
١ اَلتبلیغ وعظ کساء النساء ج ٧ ٦٧ و٦٨ ٢ اصلاحِ انقلاب ج ١ ص ٢٧٣ ٣ وعظ العاقلات الغافلات
وہ تعلیم اَخلاق کی اصلاح کرنے والی ہے جس سے اُن کی آخرت اور دُنیا سب درست ہو جائے ! عقائد صحیح ہوں، عادات درست ہوں، معاملات صاف ہوں، اخلاق پاکیزہ ہوں ! ! ١ ضرورت ہے کہ بچیوں کو نئی تعلیم و انگریزی وغیرہ کے بجائے پرانی تعلیم (یعنی اسلامی تعلیم) دیجیے تاکہ وہی تعلیم اُن کے رگ وپے میں رچ جائے پھر آپ دیکھیں گے وہ بڑی ہو کر کیسی باحیا، سلیقہ شعار، دیندار اور سمجھدار ہوں گی ٢
اُصولی بات :
یہ اَمر زیرِ بحث ہے کہ کون سی تعلیم ہونی چاہیے ؟ مختصر یہ ہے کہ دین کی تعلیم ہو ! ہاں گھر کا حساب و کتاب یا دھوبی کے کپڑے لکھنے کی ضرورت اُن کو بھی واقع ہوتی ہے، سو اِتنا حساب و کتاب بھی سہی (ضروری ہے) اور اگر محض اس ضرورت سے آگے کمال حاصل کرنے کے لیے اُن کو تعلیم دی جاتی ہے ، سو کمال بھی جب ہی معتبر ہوتا ہے جبکہ مضرت نہ ہو ! ہم تو مشاہدہ کرتے ہیں کہ نئی تعلیم سے مضرت پہنچتی ہے ! اس وجہ سے اُن کی تعلیم میں یہ اُمور تو ہر گز نہ ہونے چاہئیں اسی طرح ہر وہ تعلیم جس سے دینی ضرر پیش آئے (وہ بھی نہ ہونا چاہیے) ! البتہ دینی تعلیم مضر ہو ہی نہیں سکتی جبکہ اس کے ایسے فضائل اور منافع دیکھے بھی جاتے ہیں تو پھر وہ کیسے مضر ہو سکتی ہے ! ! ٣
عورتوں کا کورس اور نصاب ِ تعلیم :
ضروری ہے کہ عورتوں کی تعلیم کا کورس کسی محقق عالم سے تجویز کرواؤ ،اپنی رائے سے تجویز نہ کرو ٤ لڑکیوں کے لیے نصاب ِ تعلیم یہ ہونا چاہیے کہ پہلے قرآنِ مجید حتی الامکان صحیح پڑھایا جائے پھر دینی کتابیں سہل زبان میں جن میں دین کے تمام اَجزاء کی مکمل تعلیم ہو، میرے نزدیک بہشتی زیور کے دسوں حصے ضرورت کے لیے کافی ہیں، بہشتی زیور کے اَخیر میں مفید رسالوں کا نام بھی لکھ دیا گیا ہے جن کا پڑھنا اور مطالعہ کرنا عورتوں کے لیے مفید ہے مگر سب نہ پڑھیں تو ضروری مقدار پڑھ کر باقی کا مطالعہ ہمیشہ رکھیں، مفید کتابوں کے مطالعہ سے کبھی غافل نہ رہیں۔ ٥ ( باقی صفحہ ٥٧)
١ اَلتبلیغ ص ٦٣ ٢ اَلتبلیغ ص٨٠ ٣ حقوق الزوجین ص ٣٠٧ ٤ اَلتبلیغ ص٢٣٤ ٥ اصلاحِ اِنقلاب
ذِکرِحَسنَین رضی اللہ عنہما
( حضرت سیّدانور حسین نفیس الحسینی شاہ صاحب )
دوشِ نبی ۖ کے شاہسواروں کی بات کر
کون و مکاں کے راج دُلاروں کی بات کر
جن کے لیے ہیں کوثر و تسنِیم موجزن
اُن تشنہ کام بادہ گُساروں کی بات کر
خُلدِبریں ہے جن کے تقدُّس کی سیرگاہ
اُن خوں میں غرق غرق نِگاروں کی بات کر
کلیوں پر کیا گزر گئی پھولوں کو کیا ہوا
گلزارِ فاطمہ کی بہاروں کی بات کر
جن کے نَفس نَفس میں تھے قرآں کُھلے ہوئے
اُن کربلا کے سینہ فگاروں کی بات کر
شِمرِ لعیں کا ذِکر نہ کر میرے سامنے
شیرِ خدا کے مرگ شِعاروں کی بات کر
قسط : ١٦
گلدستۂ احادیث
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )
علم تین ہیں :
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اَلْعِلْمُ ثَلٰثَة آیَة مُّحْکَمَة اَوْ سُنَّة قَائِمَة اَوْ فَرِیْضَة عَادِلَة ، وَمَاکَانَ سِوَی ذَالِکَ فَھُوَ فَضْل ۔ ١
''حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ۖ نے فرمایا علم تین ہیں : (١)آیت ِمحکمہ(٢)سنت ِ قائمہ (٣)فریضۂ عادلہ، اِن کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زائد ہے ''
فائدہ : حدیث پاک کا مطلب (واللہ اَعلم) یا تو یہ ہے کہ علمِ دین کی تین قسمیں ہیں : آیت ِمحکمہ کا علم ، سنت ِ قائمہ کا علم اور فریضہ ٔعادلہ کا علم یا یہ مطلب ہے کہ علمِ دین کی بنیاد تین چیزوں پر ہے :
(١) آیت ِ محکمہ : قرآنِ پاک کی وہ آیات جن کا حکم منسوخ نہ ہو اور مراد بھی واضح ہو چونکہ اصلِ قرآن آیات ِ محکمات ہی ہیں اس لیے اس موقع پر صرف ان ہی کا تذکرہ کیا گیا۔
(٢) سنت ِ قائمہ : وہ اَحادیث جن کا ثبوت صحیح طریق سے ہوچکا ہو اور وہ غیر منسوخ اور معمول بہا ہوں
(٣) فر یضہ ٔعادلہ : اس سے مراد اِجماعِ اُمت اور قیاسِ شرعی ہیں، اِن کو فریضہ اس لیے کہا گیا ہے کہ ان پر بھی اسی طرح عمل کرنا ضروری ہے جس طرح کتابُ اللہ اور سنتِ رسول اللہ ۖ پر، کیونکہ عَادِلَہ کے معنٰی مُسَاوِیَة کے ہوتے ہیں۔
١ سُنن اَبوداود ٢/٤٣ کتاب الفرائض، سُنن ابنِ ماجہ ص٦ ، مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٢٣٩
اس حدیث شریف میں اس طرف اشارہ ہوا کہ دین و شریعت کی بنیاد چار چیزوں پر ہے (١)کتاب اللہ (٢)سنت ِ رسول اللہ (٣)اِجماعِ اُمت (٤)قیاس شرعی
ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زائد ہے یعنی وہ دلیلِ شرعی نہیں بن سکتا، جو لوگ صرف قرآن کو حجت مانتے ہیں اور وہ لوگ جو صرف کتاب و سنت فقط دو کو حجت مانتے ہیں اِجماعِ اُمت اور قیاسِ شرعی کو حجت نہیں مانتے ،اُنہیں اس حدیث پر نظر کرلینی چاہیے کہ اس سے چاروں کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے !
تین چیزیں جن میں کسی مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا :
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ثَلٰث لَّا یَغُلُّ عَلَیْھِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ اِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلّٰہِ ، وَالنَّصِیْحَةُ لِلْمُسْلِمِیْنَ ، وَلُزُوْمُ جَمَاعَتِھِمْ فَاِنَّ دَعْوَتَھُمْ تُحِیْطُ مِنْ وَّرَآئِھِمْ ۔ ١
''حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسولِ اکرم ۖنے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی بھی مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا(١) ایک تو عمل خالص اللہ کے لیے کرنا(٢) دوسرے مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا(٣) تیسرے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا،اس لیے کہ جماعت کی دُعا اِن کو چاروں طرف سے گھیرے رکھتی ہے''
فائدہ : حدیث ِپاک میں جو بتلایا گیا ہے کہ کسی بھی مسلمان کا دل تین چیزوں میں خیانت نہیں کرتا اس کا مطلب (واللہ اعلم) یہ ہے کہ یہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ہر مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ یہ اُس میں پائی جائیں اور کوئی بھی اِن سے خالی نہ رہے !
اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ بندہ جو عمل کرے وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اُس کی رضا کے لیے کرے اس کے علاوہ اُس کا کوئی اور مقصد نہ ہو !
١ مشکوٰة المصابیح کتاب العلم رقم الحدیث ٢٢٨ ، الرسالة للامام الشافعی ص ٤٠١
مسلمانوں کے ساتھ نصیحت و خیرخواہی یہ ہے کہ حتی المقدور اپنے دوسرے بھائیوں کو بھلائی کی نصیحت کرتا رہے اور اُنہیں سیدھی راہ پر لگانے کی کوشش کرتا رہے، نیز دُنیاوی اعتبار سے اُن کی اعانت و اِمداد اور ہر مشکل و پریشانی میں خبرگیری کرتا رہے اور اُن کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے !
مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے کے معنٰی یہ ہیں کہ زندگی کے ہر مرحلہ پر اجتماعیت کے اُصول پر کاربند رہے اور اپنے آپ کو کبھی انفرادیت کی راہ پر نہ ڈالے ! علماء ِ حق کے متفقہ عقائد ِ صحیحہ اور اَعمالِ صالحہ کی موافقت کرتا رہے اور اُن کی جماعت ِحق کے ساتھ جڑا رہے ! جمعہ و جماعت وغیرہ میں اُن لوگوں کے ہمراہ رہ کر اجتماعیت کو فروغ دے تاکہ اسلامی طاقت و قوت میں بھی اضافہ ہو اور رحمتِ ِخداوندی کے نزول کا سبب بھی ہو ! کیونکہ جماعت پر خدا کی رحمت ہوتی ہے جو جماعت کے ساتھ رہے گا اُس پر رحمت بھی ہوگی اور وہ جماعت کی برکتیں بھی حاصل کرے گا۔ (جاری ہے)
ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور میں اشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر
اور دینی ادارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں !
نرخ نامہ
بیرون ٹائٹل مکمل صفحہ 3000 اندرون رسالہ مکمل صفحہ 1000
اندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 2000 اندرون رسالہ نصف صفحہ 500
قسط : ١
اربعین حدیثا فی فضل سُورة الاخلاص
فضائل سورۂ اِخلاص
( الشیخ محمد یوسف بن عبداللہ الارمیونی ، مترجم مولانا قاری عبدالحفیظ صاحب )
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ (م : ٩١١ھ)کے شاگرد حضرت علامہ یوسف بن عبداللہ بن سعید الحسینی الارمیونی رحمة اللہ علیہ(م : ٩٥٨ھ) کی تصنیف ''اربعین حدیثا فی فضل سورة الاخلاص''جو سورہ ٔاِخلاص کی فضیلت پر چالیس احادیث ِنبویہ پر مشتمل ہے اس کا اُردو ترجمہ جامعہ مدنیہ لاہور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی عبدالحمید صاحب رحمة اللہ علیہ(م : ١٤٢٤ھ/٢٠٠٣ھ) کے فرزند اَرجمند حضرت مولانا قاری عبدالحفیظ صاحب مدظلہم (فاضل و مدرس جامعہ مدنیہ) نے کیا ہے جس کی اِفادیت کے پیش ِنظر اسے نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
حضرت علامہ یوسف بن عبداللہ بن سعید الحسینی الارمیونی الشافعی حمدو صلوة کے بعد تحریر فرماتے ہیں
رب کی صفات :
(١) واقدی نے اَسباب النزول میں ذکر کیا ہے کہ چند یہودی نبی کریم ۖ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ ہمارے سامنے اپنے رب کی صفات ذکر فرمائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات توراة میں ذکر فرمائیں ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ اِخلاص نازل فرمائی ۔ (تفسیر طبری ج ٣٠ ص ٣٤٣ )
حضرت اِبن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مشرکین نے کہا یا رسول اللہ (ۖ ) ہمیں اپنے رب کا نسب بتلائیے اِس پر سورۂ ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) نازل ہوئی
تہائی قرآن کے برابر ثواب :
(٢) عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مَنْ قَرَأَ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد فَکَأَنَّمَا قَرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ۔ رواہ احمد والضیاء المقدسی فی المختارہ ورجالہ رجال الصحیح ۔ ( مُسند اِمام احمد بن حنبل ٥/١٤١ )
'' حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جس شخص نے ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) کی تلاوت کی گویا اُس نے تہائی قرآن کی تلاوت کی''
(٣) عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَال رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مَنْ قَرَأَ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد مَرَّةً فَکَأَنَّمَا قَرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ۔ وَمَنْ قَرَأَھَا مَرَّتَیْنِ فَکَأَنَّمَا قَرَأَ ثُلُثَیِ الْقُرْآنِ وَمَنْ قَرَأَھَا ثَلَاثًا فَکَأَنَّمَا قَرَأَ الْقُرْآنَ کُلَّہ۔ (جمع الجوامع السیوطی ١/٨٢١ )
'' حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا جس کسی نے ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) ایک مرتبہ پڑھی تو گویا اُس نے تہائی قرآن پڑھا اور جس کسی نے دو مرتبہ اسے پڑھا تو گویا اُس نے دو تہائی قرآن پڑھا اور جس کسی نے اسے تین بار پڑھا تو گویا اُس نے تمام قرآن پڑھا ''
سوتے وقت پڑھنے کی فضیلت :
(٤) عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ اِذَا وَضَعْتَ جَنْبَکَ عَلَی الْفِرَاشِ وَقَرَأْتَ فَاتِحَةَ الْکِتَابِ وَ ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) فَقَدْ آمَنْتَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ اِلاَّ الْمَوْتَ۔ ( رواہُ البزار )
''حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا اگر تو بستر پر لیٹ کر سورۂ فاتحہ اور ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) پڑھ لے تو تُو موت کے ما سوا ہر چیز سے محفوظ ہوجائے گا ''
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا اَنَّ النَّبِیَّ ۖ کَانَ اِذَا اَوٰی اِلٰی فِرَاشِہ کُلَّ لَیْلَةٍ جَمَعَ کَفَّیْہِ ثُمَّ نَفَثَ فِیْھِمَا فَقَرَأَ ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد وَ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) ثُمَّ یَمْسَحُ بِھِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِہ یَبْدَأُ عَلٰی رَأْسِہ وَوَجْھِہ وَمَا اَقْبَلَ مِنْ جَسَدِہ یَفْعَلُ ذٰلِکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ۔ ( صحیح البخاری فی الطب والادب ، والترمذی وابن ماجہ فی الدعاء والنسائی فی التفسیر )
''حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ روزانہ جب اپنے بستر پر سونے کے لیے تشریف لاتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اَکٹھا فرماتے پھر ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد، قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) پڑھ کر اُن پر دم کرتے اور اپنے سر اور چہرہ سے شروع فرما کر اپنے جسم کے اگلے حصہ پر جہاں تک ہو سکتا اُنہیں پھیر لیتے، اس طرح آپ تین مرتبہ فرماتے''
وَرَوَی ابْنُ مَرْدَوَیْہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مَنْ قَرَأَ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد وَالْمُعَوَّذِتَیْنِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ اِذَا اَخَذَ مَضْجِعَہ فَاِذَا قُبِضَ قُبِضَ شَہِیْدًا وَاِنْ عَاشَ عَاشَ مَغْفُوْرًا لَّہ ۔ ( تفسیر قرطبی )
''ابن ِمردویہ نے ابن ِعباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے سوتے وقت ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) اور معوذتین (قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ، قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) تین بار پڑھ لیں تو اگر اُسے اُس رات موت آگئی تو شہادت کی موت مرے گا اور اگر زِندہ رہا تو تمام گناہوں سے پاک ہوگا ''
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ خُبَیْبٍ اَنَّ النَّبِیَّ ۖ قَالَ لَہ اِقْرَأْ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) وَالْمُعَوِّذَتَیْنِ حِیْنَ تُصْبِحُ وَ تُمْسی ثَلَاثًا تَکْفِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ ۔
''حضرت عبداللہ بن خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ نے اُنہیں فرمایا صبح و شام تین تین بار( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) اور معوذتین پڑھا کرو ، یہ تمہیں ہر چیز سے کافی ہوں گی ''
جمعہ کے دن سورۂ اِخلاص پڑھنے کی فضیلت :
(٥) عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ۖ مَنْ قَرَأ بَعْدَ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد وَ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) سَبْعَ مَرَّاتٍ اَعَاذَہُ اللّٰہُ مِنَ السُّوْئِ اِلَی الْجُمُعَةِ الْاُخْرٰی ۔ (عمل الیوم و الیلیة لابن السنی ٣٧٧ )
''حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا جس شخص نے جمعہ کی نمازکے بعد ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ، قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) سات سات بار پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ تک ہر برائی سے اُسے محفوظ رکھیں گے ''
وَرَوَاہُ سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ عَنْ مَکْحُوْلٍ قَالَ مَنْ قَرَأَ فَاتِحَةَ الْکِتَابِ وَالْمُعَوِّذَتَیْنِ وَ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد) سَبْعَ مَرَّاتٍ یَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ اَنْ یَّتَکَلَّمَ کَفَّرَاللّٰہُ عَنْہُ مَابَیْنَ الْجُمُعَتَیْنِ ۔ وَفِیْ لَفْظٍ عَنِ ابْنِ زَنْجُوَیْہِ فِیْ فَصْلِ الْاِیْمَانِ عَنِ ابْنِ شَھَابٍ قَالَ مَنْ قَرَأَ ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد) وَالْمُعَوِّذَتَیْنِ بَعْدَ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ حِیْنَ یُسَلِّمُ الْاِمَامُ قَبْلَ اَنْ یَّتَکَلَّمَ سَبْعًا سَبْعًا کَانَ ضَامِنًا ھُوَ وَمَالُہ مِنَ الْجُمُعَةِ اِلَی الْجُمُعَةِ الْاُخْرٰی ۔ (کنزالعمال رقم الحدیث ٤٩٨٥)
''صاحب ِسنن سعید بن منصور نے مکحو ل سے روایت کیا اُنہوں نے فرمایا کہ جس کسی نے جمعہ کے روز جمعہ کی نماز کے سلام کے بعد گفتگو کرنے سے قبل سورۂ فاتحہ معوذتین اور ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) سات مرتبہ پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اِنہیں دونوں جمعوں کے مابین گناہوں کے کفارہ کر دیں گے ! ابن ِزنجویہ نے ابن ِشہاب سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں، آپ نے فرمایا ''جس کسی نے ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) اور معوذتین کو جمعہ کی نماز کے بعد اِمام کے سلام پھیرنے کے وقت کسی سے گفتگو کیے بغیر سات سات بار پڑھا تو وہ خود اور اُس کا مال اس جمعہ سے دُوسرے جمعہ تک کے لیے محفوظ ہوگیا ''
وَفِیْ لَفْظٍ عِنْدَ اَبِیْ عُبَیْدٍ وَابْنِ اَبِیْ شَیْبَةَ وَابْنِ الضَّرِیْسِ عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَتْ مَنْ صَلَّی الْجُمُعَةَ ثُمَّ یَقْرَأُ بَعْدَھَا ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد) وَالْمُعَوِّذَتَیْنِ سَبْعًا سَبْعًا حُفِظَ مِنْ مَجْلِسِہ ذٰلِکَ اِلٰی مِثْلِہ فِیْ رِوَایَةٍ وَالْفَاتِحَةَ ١
''اَبو عبید، اِبن اَبی شیبہ اور اِبن الفریس نے اسماء بنت ِ ابی بکر صدیق سے یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا جس کسی نے جمعہ کی نماز پڑھی پھر اِس کے بعد ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد)اور معوذتین سات ساتھ بار پڑھیں تو اِس مجلس ِ (جمعہ) سے اگلی مجلس (جمعہ) تک اُس کی حفاظت کردی گئی ! ایک دُوسری روایت میں ہے کہ فاتحہ بھی پڑھے''
ہر برائی سے بچنے کے لیے بہترین دم :
(٦) عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ عَاذَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ فَقَالَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اُعِیْذُکَ بِالْاَحَدِ الصَّمَدِ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ کُفُوًا اَحَد مِنْ شَرِّ مَا تَجِدُ ۔ رَدَّدَھَا سَبْعَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا اَرَادَا اَنْ یَّقُوْمَ قَالَ تَعَوَّذْ بِھَا یَا عُثْمَانُ فَمَا تَعَوَّذْ تُمْ بِخَیْرٍ مِّنْھَا۔ رواہ الحاکم ۔ ٢
''حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ۖ نے مجھے یہ دُعا پڑھ کر اللہ کی پناہ میں دیا '' بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اُعِیْذُکَ بِالْاَحَدِ الصَّمَدِ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ کُفُوًا اَحَد مِنْ شَرِّ مَا تَجِدُ'' آپ نے یہ دُعا سات مرتبہ پڑھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اُٹھنے کا اِرادہ کیا تو آپ نے فرمایا : اے عثمان ! ان کلمات کے ذریعہ (دُعا مانگ کر اور اپنے اُوپر دم کر کے) اللہ کی پناہ حاصل کیا کرو،ان کلمات سے بڑھ کر تمہارے لیے پناہ حاصل کرنے کے اور کوئی کلمات نہیں ''
١ مصنف ابنِ ابی شیبہ رقم الحدیث ٥٥٧٥ ٢ کنز العمال رقم الحدیث ٢٨٥١٧
نمازوں کے بعد پڑھنے کی فضیلت :
(٧) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ ثَلَاث مَنْ جَائَ بِھِنَّ مَعَ الْاِیْمَانِ دَخَلَ مِنْ اَیِّ اَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَائَ وَزُوِّجَ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ حَیْثُ شَائَ ۔ مَنْ عَفَا عَنْ قَاتِلِہ ، وَاَدّٰی دَیْنًا خَفِیًّا وَقَرَأَ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاةٍ مَّکْتُوْبَةٍ عَشَرَ مَرَّاتٍ ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدْ) فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ اَوْا اِحْدَاھُنَّ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اَوْ اِحْدَاھُنَّ رَوَاہُ اَبُوْیَعْلٰی ۔ ١
''حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا ''تین کام ایسے ہیں اگر کوئی ایمان کی حالت میں اُنہیں کرے گا تو جنت کے جس د روازے سے چاہے گا داخل ہوجائے گا اور حورِ عین سے جہاں چاہے گا شادی کردی جائے گی: (١) جس نے اپنے قاتل کو معاف کردیا (٢) چھوٹا موٹا قرض بھی ادا کردیا(٣) جس نے ہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ(قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد) کوپڑھا ! حضرت اَبوبکر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا یا رسو ل اللہ ۖ کیا اِن میں سے ایک بھی عمل کر لیا ؟ تو آپ نے فرمایا ایک عمل بھی کرلیا ''
(٨) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مَنْ قَرَأَ ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) دُبُرَ کُلِّ صَلٰوةٍ مَّکْتُوْبَةٍ عَشْرَ مَرَّاتٍ اَوْجَبَ اللّٰہُ رِضْوَانَہ وَ مَغْفِرَتَہ ۔ رواہ ابن النجار فی تاریخہ وھو عند الطبرانی فی معجمہ الکبیر من غیر ذکر عشر عن اُم سلمة رضی اللّٰہ عنھا۔ ٢
''حضرت ابن ِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا جو شخص ہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) پڑھے تو اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور مغفرت اُس پر واجب کردیتے ہیں ''
١ معجم کبیر طبرانی ٢٣/٣٠٧ ، مجمع الزوائد ١٠/٢٨٣
٢ مُسند ابی یعلی١٧٩٤ ، مجمع الزوائد ١٠/ ١٠٢ ، دُر منشور ٦/٤١١
اِبن ِنجار نے اپنی تاریخ میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں اِس روایت کو حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے لفظ عشر (دس) کے بغیر روایت کیا ہے۔
(٩) عَنْ تَمِیْمِ الدَّارِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مَنْ قَالَ بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ اِلٰھًا وَّاحِدًا صَمَدًا لَّمْ یَتَّخِذْ صَاحِبَةً وَّلَاوَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہ کُفُوًا اَحَد عَشْرَ مَرَّاتٍ کَتَبَ اللّٰہُ لَہ اَرْبَعِیْنَ اَلْفَ حَسَنَةٍ ۔ ١
''حضرت تمیم ِ داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جو شخص صبح کے نمازکے بعد دس مرتبہ پڑھے گا اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ اِلٰھًا وَّاحِدًا صَمَدًا لَّمْ یَتَّخِذْ صَاحِبَةً وَّلَا وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہ کُفُوًا اَحَد تو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے چالیس ہزار نیکیاں لکھ دیں گے''
(١٠) عَنْ مَعَاذِ بْنِ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مَنْ قَرَأَ ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) عَشْرَ مَرَّاتٍ بَنَی اللّٰہُ لَہ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِذًا اَسْتَکْثِرُ قَالَ اَللّٰہُ اَکْثَرُ وَاَطْیَبُ ۔ ٢
'' حضرت معاذ بن اَنس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا جو کوئی ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد) دس بار پڑھے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائیں گے ! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تو پھر میں کثرت سے پڑھوں گا تو آپ نے فرمایا تو اللہ تعالیٰ اِس سے بھی زیادہ اور بہتر عطا فرمائیں گے'' (جاری ہے)
١ مُسند فردوس دیلمی رقم الحدیث ٥٤٧٥ ، عمل الیوم والیلة للسنی ص١٣٣
٢ مُسند اِمام احمد بن حنبل ٥/٤٣٧ ، مجمع الزوائد ٧/١٤٥
مکتوبات شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قسط : ٨
( حضرت مولانا تنویر احمد صاحب شریفی، مجلس یادِ گار شیخ الاسلام پاکستان کراچی )
حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے مکتوبات کا مطالعہ حضرت سے مثل ِملاقات کے ہے، کیسی کیسی ہدایات اور نافع ارشادات اس میں ہیں، اس کا خلاصہ اور تشریح ذیل میں کی گئی ہے اُمید ہے کہ قارئین ِ کرام بالخصوص متوسلین حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ اس سے طمانیت حاصل کریں گے۔ (شریفی)
غیب کے پردے ہٹیں گے تو معاملہ کھلے گا :
انسان اپنی اولادوں کو تعلیم کے لیے کہیں دُنیاوی لائن پر لگاتا ہے اور کہیں دینی لائن پر ! ہمارے اکابر نے کبھی دُنیاوی علوم و فنون کے حصول سے منع نہیں فرمایا ! ہاں اس طرف ضرور توجہ دلائی ہے کہ حلال و حرام اور روز مرہ کے مسائلِ دینیہ کا علم حاصل کرنا ضروری ہے، یہ دُنیاوی علوم و فنون کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اگرچہ ایسا نہیں ہے ! حضرت مدنی رحمةاللہ علیہ کے ارشاد سے اس پر روشنی پڑتی ہے آپ بھی اسے پڑھ کر سوچیے تاکہ عمل کی راہ آسان ہو حضرت فرماتے ہیں :
''آپ نے ہزاروں روپے برباد کر کے جن بچوں کو طاغوتِ اکبر بنادیا اِن کے نفع کو اور اس بچہ کے نفع کو آخرت میں موازنہ فرمائیے گا ! آج تو غیب کے پردے پڑے ہوئے ہیںمگر کل کو جب یہ پردے اُٹھ جائیں گے تو حقیقت معلوم ہوگی '' ١
آفات سے تحفظ کے لیے محبوب عمل :
فتنوں کے اس دور میں آفات تسبیح کے دھاگے کے ٹوٹنے پر دانے یکے بعد دیگرے گرنے کے مثل آرہی ہیں ! ہر قسم کی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے حضرت مدنی رحمةاللہ علیہ یہ مجرب عمل بتلاتے ہیں :
''اگر ہوسکے تو اِن آفات سے تحفظ کے لیے روزانہ درُودِ تُنْجِیْنَا ستر مرتبہ پڑھا کریں '' ٢
١ مکتوباتِ شیخ الاسلام ج١ ص ١٣٢ ٢ ایضاً ج١ ص ١٣٢
درُودِ تُنْجِیْنَا یہ ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ صَلٰوةً تُنْجِیْنَا بِھَا مِنْ جَمِیْعِ الْاَھْوَالِ وَالْاٰفَاتِ وَتَقْضِیْ لَنَا بِھَا جَمِیْعَ الْحَاجَاتِ وَتُطَھِّرُنَا بِھَا مِنْ جَمِیْعِ السَّیِّئَاتِ وَتَرْفَعُنَا بِھَا عِنْدَکَ اَعْلَی الدَّرَجَاتِ وَتُبَلِّغُنَا بِھَا اَقْصَی الْغَایَاتِ مِنْ جَمِیْعِ الْخَیْرَاتِ فِی الْحَیٰوةِ وَ بَعْدَ الْمَمَاتِ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر

تدوین ِ علمِ حدیث اور غلط فہمی :
غیروں سے کیا گلہ ہو، یہاں بعض اسلام کا کلمہ پڑھنے والے نبی آخر الزماں حضرت محمد ۖ کے ارشاداتِ مبارکہ کو تسلیم نہیں کرتے ! اور یا پھر اِن ارشادات میں اعتراضات کر کے مشکوک بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ! بعض تو احادیث ِمبارکہ کو اِس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ یہ مدون بعد میں ہوئیں ! اس طرح بتلا کر وہ اُمت کو بد ظن کرتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ احادیث صدیوں کے بعد مدون ہوئی ہیں ! ان غلط فہمیوں کا جواب حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے یہ ارشاد فرمایا :
''یہ بات بالکل غلط ہے کہ علمِ حدیث کی تدوین تین صدی کے بعد ہوئی ! علم حدیث کی تدوین تو آنحضرت علیہ السلام ہی کے زمانے سے شروع ہوئی تھی ! حضرت عبداللہ ابن عمر وابن العاص کو آپ نے احادیث کے لکھنے اجازت دے دی تھی وہ لکھا کرتے تھے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ احادیث ِنبویہ کا حافظ کوئی دوسرا بجز عبداللہ ابن عمرو بن العاص نہیں ہے ! اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں لکھتا نہ تھا۔ (بخاری )
جنابِ رسول اللہ ۖ نے جب حجة الوداع میں منیٰ میں اپنا نہایت جامع اور فصیح خطبہ پڑھا جس میں اجمالاً تمام شرائع اسلامیہ کو ذکر کیا گیا تھا تو ابو شاہ نے اس کے لکھوا دینے کی استدعا کی آپ نے ارشاد فرمایا : اس کو لکھ دو (بخاری)'' ٢
حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں :
١ مکتوباتِ شیخ الاسلام ج١ ص ١٣٢ ٢ ایضاً ج١ ص ١٣٣
''غرضے کہ تسوید ِاحادیث زمانہ نبوی (علیہ السلام) میں شروع ہوگئی تھی جوکہ صحابہ کرام کی توجہ سے ترقی پذیر ہوتی رہی (اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مصاحف کو منضبط کردینے کی بناء پر پورے اطمینان اور وثوق کے ساتھ اس پر توجہ ہوگئی) مگر یہ تحریر محض یاد داشت اور مسودّے کے طور پر تھیں، کوئی ترتیب نہ تھی ! اسلام کی نشرو اشاعت کی مصروفیت اشتغال بالجہاد کی شدید اہمیت کی بناء پر صحابہ کرام نے اپنے اپنے حافظے پر اعتماد کر رکھا تھا، مگر اسی زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تابعین میں اہلِ قلم اور اہلِ حفظ ایسے ایسے نشوونماپا جاتے ہیں جنہوں نے ان متفرق مسودّوں کو محفوظ فی الصدور احادیث کو ابواب پر ترتیب دینا اور بڑے بڑے دفاتر تیار کرنا شروع کردیے تھا ! ابن شہاب زہری اور محمد ابن ابی بکر بن حزم اور ان کے ہم عصر بڑے بڑے ائمہ تابعین ہر ہر مرکز میں بکثرت موجود ہیں۔
حضرت عمر ابن العزیز کا زمانۂ خلافت سو ہجری ہے یعنی بعد وفات نبوی علیہ الصلٰوة والسلام نوے برس، انہوں نے بہت سے صحابہ کرام سے علم حاصل کیا تھا، بہت بڑے علامہ جلیل القدر خلیفہ راشد ہیں ! انہوں نے اپنے عہدِ خلافت میں نشرواشاعت حدیث کا نہایت عظیم الشان اور غیر معمولی انتظام کیا ! ان کے زمانہ ٔ خلافت میں علمِ حدیث کی بے بہا ترقی ہوئی ! اور اُس وقت سے علمِ حدیث کی تدوین کتابوں کی صورت میں شروع ہوگئی '' ١
احادیث کی ابتدائی کتب :
حضرت مدنی رحمةاللہ علیہ احادیث ِ مبارکہ کی کتابیں اور ان کو جمع کرنے والوں کا تذکرہ فرماتے ہیں :
''امام مالک رحمةاللہ علیہ کی جو ٩٣ھ میں پیدا ہوئے، محمد بن اسحاق اور واقدی وغیرہ کی کتاب المغازی، ابن ِابی شیبہ اور عبدالرزاق کی ضخیم ضخیم تصنیفات نہایت کثرت سے فقہ اور حدیث میں کی گئی ! امام محمد رحمة اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کی تصانیف بھی اُسی زمانے کی ہیں جن میں فقہ کے ساتھ احادیث بکثرت مذکور ہیں !
١ مکتوباتِ شیخ الاسلام ج١ ص ١٣٤
امام محمد رحمة اللہ علیہ کی مؤطا اور کتاب الآثار اور سیرِ کبیر و سیرِ صغیر، مبسوط وغیرہ کتب ظاہر الروایت میں ملاحظہ فرمائیے ! اوزاعی رحمة اللہ علیہ کی تصانیف، نیز سفیانِ ثوری، اعمش، طبری وغیرہ نے نہایت بڑی بڑی کتابیں لکھیں ! ! ہاں ان کتابوں میں یہ بات یہ ضرور تھی کہ احادیث ِنبویہ (علیٰ صاحبہا الصلٰوة والسلام) کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال اور فتاویٰ بھی بکثرت ہوتے تھے ! فقہی استخراجات اور اِستدلالات بھی ہوتے تھے ! '' ١
مزید فرماتے ہیں :
''امام شافعی رحمة اللہ علیہ کی کتاب الام اور امام ابو یوسف رحمةاللہ علیہ کی اَمالی وغیرہ ایسے مضامین سے بھری ہوئی ہیں ! یہ حضرات دس ہجری کے بعد عمومًا ابتدائی صدی میں یہ ذخائر جمع کردیتے ہیں پھر اسی دوسری صدی کا آخری زمانہ آتا ہے جس میں ایسے بڑے بڑے اُولوالعزم حضرات پیدا ہوجاتے ہیں جوکہ اِن سابقہ مؤلفات کو چھاٹتے ہیں اور صحیح اور مرفوع احادیث کو جمع کرتے ہیں'' ٢
پھر فرماتے ہیں :
''امام بخاری ١٩٤ھ میں پیدا ہوئے ،امام احمد بن حنبل ان سے بہت پہلے پیدا ہوئے امام بخاری نے الجامع الصحیح مشہور کتاب تصنیف کی، امام احمد ان کے اُستاد ہیں انہوں نے اپنی مسند کو خاص طور پر ترتیب دیا اور اِسی دوسری صدی کے آخری زمانے میں امام طحاوی، علی ابن المدینی، ابن معین ،یحییٰ بن سعید القطان، دارمی وغیرہ ہیں جن کی تصانیف کثرت سے ہیں !
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تدوین ِحدیث کا ابتدائی دور جناب رسول اللہۖ کی وفات سے پہلے ہی حسب الحکم شروع ہوجاتا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مصاحف کی ترتیب کے بعد اس میں ترقی ہوجاتی ہے ! عمر بن عبدالعزیز رحمةاللہ علیہ کے زمانے میں
١ مکتوباتِ شیخ الاسلام ج١ ص ١٣٤، ١٣٥ ٢ ایضاً ج١ ص ١٣٥
عام طورپر تسوید اور ترتیب ابواب جاری ہوگئی اور روز افزوں ترقی کے ساتھ آخیر صدی تک میں بڑی بڑی کتابیں مرتب اور مہذب ہوکر وجود میں آگئیں ! ہر حدیث کے معلم کے یہاں اِملا کا طریقہ جاری تھا ان محدثین کی جو کہ پہلی ہی صدی اور زمانہ صحابہ کرام میں مشہور بالروایت اور تدریس حدیث ہیں تاریخ میں ملاحظہ فرمائیے ! صرف یہی طریقہ نہیں تھا کہ احادیث مجمع تحدیث میں سنادی جائے اور ان کی تفسیر کرادی جائے بلکہ عموماً قلم دوات اور کاغذ ہر طالب علم کے پاس اُستاد کی مرویات کا ایک ضخیم خزانہ جمع ہوجاتا تھا جس کی یادگار معجمات ہیں، معجم صغیر وکبیر واَو سط طبرانی کی اسی کی یادگار ہیں ہاںان معجمات میں اُستاد کی جملہ روایات رَطب ویابس لکھی جاتی تھیں۔ امام مالک نے اوّلاً یہ قدم اُٹھایا کہ اِن روایات کی چھان پچھوڑ اور کاٹ چھانٹ کی اور اسی وجہ سے ان کی کتاب مؤطا وظیفۂ محدثین میں بہت زیادہ مقبول ہوئی اور عام شہرہ ہوگیا کہ ''اصح الکتب تحت ادیم السماء بعد کتاب اللّٰہ المؤطا'' مگر امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس بناء پر کہ اِس میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال اور فتاویٰ اور تابعین کے اقوال بکثرت درج ہیں اور اس وجہ سے اس میں عموماً روایات حفاظ مدینہ منورہ کی ہی پائی جاتی ہیں، دوسری تصنیف کی ضرورت سمجھی اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ ظہور پذیر ہوئیں جوکہ تیسری صدی کی ابتدائی یادگار ہیں، بہرحال ! یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ تدوین ِحدیث تیسری صدی کے بعد ہوئی '' ١ ! ! !
علمِ حدیث کی تعریف :
حضرت مدنی رحمةاللہ علیہ علمِ حدیث کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
'' (١) عِلْم یُعْرَفُ بِہِ اَحْوَالُ مَا نُسِبَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
قَوْلًا اَوْ فِعْلًا اَوْ تَقْرِیْرًا اَوْ صِفَةً ۔
١ مکتوباتِ شیخ الاسلام ج١ ص١٣٥،١٣٦
''علم حدیث وہ علم ہے جس سے اُن چیزوں کے احوال معلوم ہوتے ہیں جوکہ جناب رسول اللہ ۖ کی طرف نسبت کیے گئے ہوں، بطورِ قول کے یا فعل کے یا تقریر کے یا صفت کے ''
یہی تعریف راجح اور قوی ہے، بعض حضرات نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی داخل کیا ہے اور ان کے اقوال وافعال کو بھی حدیث میں شمار کیا ہے ! عمادی صاحب کی تعریف اس قول پرہے !
(٢) جبکہ قرآن شریف میں وارِد ہے :
( وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْی یُّوْحٰی ) ( سُورۂ نجم : ٣،٤ )
( اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہ وَقُرْاٰنَہ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ ) ( سُورة القیامة : ١٧ ، ١٨ )
تو پھر اِس میں دارمی وغیرہ کی روایت کی کیا حاجت ہے کہ حدیث کے وحی ہونے میں اس کو تلاش کیا جائے اور اس کی صحت وسقم سے بحث ہو جو کچھ بھی جنابِ رسول اللہ ۖ اَز قسم تفسیر کلام اللہ اور اَز قسم دینیات ارشاد فرمائیں گے وہ سب وحی ہے !
ہاں بعض وحی اس قسم کی ہے کہ جس کے الفاظ بھی القا فرمائے گئے ہیں ! اور بعض وہ ہے جس کے معنی القا کیے گئے ہیں اور الفاظ میں اختیار دیا گیا ، ان معنی کو جناب رسول اللہ ۖ اپنے الفاظ میں ادا فرماتے ہیں ! پھر وہ الفاظ دو قسم کے ہیں: بعض وہ ہیں جن کی نسبت جنابِ باری عز اسمہ کی طرف ہے اور اکثر وہ ہیں جن کی نسبت جناب باری عز و جل کی طرف نہیں، اوّل الذکر قرآن ہے ! ثانی الذکر حدیث قدسی ہے ! ثالث عام حدیث قولیہ ہیں ! سب واجب التسلیم ہیں مگر فرق ثبوت کے درجات میں ہے !
قرآن جنابِ رسول اللہ ۖ سے تواتراً منقول ہے یعنی اس کو نقل کرنے والے ہر زمانے میں اس قدر نفوسِ کثیرہ رہے ہیں جن میں جھوٹ بولنے یا غلطی کرنے کا احتمال باقی نہیں رہتااس لیے اس کا منکر کا فر ہے ! اور اس کو ماننا عقلاً ونقلا ً ضروری ہے ! اور اَحادیث خواہ قدسیہ ہوں یا غیر قدسیہ، اِن کے نقل کرنے والے اتنے کثیر نفوس نہیں ہیں اس لیے ان میں احتمال جھوٹ یا غلطی کا آتا ہے اس لیے قطعی الثبوت نہ ہوں گی ! اور ان کا منکر کافر نہ ہوگا ! یہ تو فرق ہمارے لیے ہے، صحابہ کے لیے نہیں ! ان کے لیے قرآن اور ارشاداتِ نبویہ سب قطعی الثبوت ہیں ! وہ اگر ایک حدیث کے سننے کے بعد منکر ہوں تو کفر لازم ہوجائے گا'' ١
حسن، ضعیف، متواتر اَحادیث کا حکم :
احادیث کے درجات پر حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :
''پھر اگر ایسے لوگ ناقل اور راوی ہیں جن کے احوال ایسے پاکیزہ اور عمدہ ہیں جن سے جھوٹ کا احتمال بالکل چھوٹ جاتا ہے تو غلبۂ ظن، سچائی اور واقعیت ثبوت کے پیدا ہوجانے کی بناء پر اس حدیث کو'' مقبول اور صحیح یا حسن'' کہا جاتا ہے !
اوراَگر اِن کے احوال ایسے نہیں ہیں تو حدیث'' ضعیف یا مردُود'' قرار دی جاتی ہے ! پھر اگر صحیح احادیث ہم معنیٰ متواتر طریقے پر ہوں اگرچہ الفاظ میں تواتر نہ پایا جاتا ہو تو اس حدیث کو'' متواتر بالمعنیٰ ''کہا جاتا ہے ! عذابِ قبر وغیرہ کی روایات ایسے ہی ہیں ان ہی میں سے اَعدادِ رکعت وغیرہ کی روایات ہیں ان پر ایمان لانا واجب ہوگا اور اِنکار کفر ہوگا ! اگرچہ الفاظ کا اِنکار ایسا درجہ نہ رکھے گا '' ٢
ہر حدیث کی وحی کے لیے جبرائیل امین کے آنے کی ضرورت نہیں :
حدیث شریف کے متعلق حضرت مدنی رحمةاللہ علیہ مزید فرماتے ہیں :
''ہر حدیث کی وحی کے لیے نزولِ جبرئیل علیہ السلام ضروری نہیں ! وحی کی اقسام آٹھ یا نو ہیں ! جنابِ رسول اللہ ۖ اور انبیاء علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہیں ! ! الہام اور کشف بھی وحی ہے ! ! ان کے دل میں کوئی بات من جانب اللہ آجانی جس کو اِن کو بتلادیا جائے کہ من جانب اللہ وحی ہے، وغیرہ وغیرہ ! ! '' ٣
١ مکتوباتِ شیخ الاسلام ج١ ص١٣٦،١٣٧ ٢ ایضاً ج١ ص ١٣٧ ٣ ایضاً ج١ ص ١٣٧
علومِ حدیث پر درج بالا ارشادات کتابوں کی موجودگی میں نہیں لکھے گئے، نہ ہی قیام کی حالت میں لکھے گئے پھر کہاں لکھے گئے ؟ یہ بھی حضرت مدنی رحمةاللہ علیہ کے قلم سے پڑھنے میں لطف آئے گا۔حضرت مدنی ، مولانا احمد حسین صاحب لاہر پوری کو لکھتے ہیں :
''اس وقت ریل میں جلدی میں یہ تحریر لکھ سکا ہوں، بہت سے خطوط کے جوابات میں اس وجہ سے حرج ہوا ہے، اگر کافی ہو، فَبِہَا ! اگر اس پر کوئی شبہ ہو تو لکھیںبوقت ِفرصت اس کے لیے بھی کچھ عرض کرسکوں گا ' ' ١
اعمال میں یکسوئی نہ ہونے کی وجہ ؟
ہمارے حضرات خواہ دینی ہوں یا دُنیاوی، ان میں یکسوئی اور دل نہ لگنے کی وجہ کیا ہوتی ہے ؟ اس کے متعلق حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :
''انسان کوئی کام خواہ دُنیاوی ہو یا دینی، جسمانی ہو یا رُوحانی، جب شروع کرتا ہے طبیعت بوجہ عدمِ عادت اس سے گھبراتی اور اُلجھتی ہے پھر آہستہ آ ہستہ اس سے مناسبت پیدا ہوتی رہتی ہے اور آخر کار اِس سے اُلفت پیدا ہوکر طبیعت ِ ثانیہ کا ظہور ہوجاتا ہے استقلال اور ثبات سب سے زیادہ ضروری اَمر ہے'' ٢
اس سے ہمیں یہ سبق ملا کہ اعمال میں دل نہ بھی لگے لیکن اعمال انجام دیتا چلا جائے، ثابت قدمی کی برکات اللہ رب العزت نے بہت رکھی ہیں۔
دوا کی تاثیر معلوم نہ ہو تب بھی فائدہ کرتی ہے :
بعض حضرات کہتے ہیں کہ قرآن مجید معنی سمجھے بغیر پڑھنے سے کیا فائدہ ؟ اس کا مسکت جواب حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے یہ ارشاد فرمایا ہے :
''قرآن شریف روزانہ ایک پارہ پڑھ لینا اگرچہ بِلا معنی ہو، مفید ہے ! دوا کی تاثیر خواہ معلوم ہو یا غیر معلوم نفع ضرور ہوتا ہے'' ٣
١ مکتوباتِ شیخ الاسلام ج١ ص١٣٧، ١٣٨ ٢ ایضاً ج١ ص ١٣٩ ٣ ایضاً ج١ ص ١٣٩
خاندانِ شیخ الاسلام سیّد النسب ہے :
حضرت مولانا فضل ِرحمن صاحب گنج مراد آبادی قدس سرہ صاحب ِکشف بزرگ تھے حضرت مدنی کے والد ماجد الشیخ حبیب اللہ صاحب مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ کا سلوک میںحضرت مولانا فضل ِرحمن صاحب گنج مراد آبادی سے رشتہ تھا ! حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کے سیّد النسب ہونے سے متعلق پڑھیے :
''ہماری قدیم رشتہ داری سادات یا شیوخ سے چلی آتی ہے اور شیوخ بھی وہ رشتہ دار رہے ہیںجس کا سلسلہ نسب اعلیٰ رہا ہے ! پرانے کاغذات میں میں نے لفظ ''سید ''لکھا دیکھا ہے ! والد صاحب کے جوابات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔ پرانے لوگوں سے بھی سیّد ہونا میں نے سن لیا تھا ! حضرت مولانا فضل ِرحمن صاحب گنج مراد آبادی والد مرحوم کو جبکہ وہ بانگر میو میں ہیڈ ماسٹر تھے اور مولانا سے بیعت ہوچکے تھے ایک مجلس میں فرمایا تھا کہ میاں یہ تو بڑے خاندانی ہیں اور پیر زادے ہیں ! ان کے جد ِ امجد شاہ نورالحق صاحب رحمة اللہ علیہ رات میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے درخواست کی کہ حبیب اللہ میری اولاد ہے اِن کی طرف خصوصی توجہ کرو '' ١
بقیہ : اصلاح النساء
عورتوں کے پاس ایسی کتابیں پہنچاؤ جن میں دین کے پورے اَجزاء سے کافی بحث ہو، عقائد کا بھی مختصر بیان ہو، وضو اور پاکی ناپاکی کے بھی مسائل ہوں، نمازروزہ حج زکوة نکاح بیع و شراء کے بھی مسائل ہوں، اصلاحِ اخلاق کا طریقہ بھی مذکور ہو ، آداب اور سلیقہ (و تہذیب) کی باتیں بھی بیان کی گئی ہوں ،یہ بات مردوں کے ذمہ ہے اگر وہ اس میں کوتاہی کریں گے تو اُن سے بھی مواخذہ ہوگا (حقوق الزوجین ص ١٠٢) (جاری ہے)
١ مکتوباتِ شیخ الاسلام ج١ ص١٤٠، ١٤١
قسط : ١
کارٹون بینی، ویڈیو گیم اور مسلمان بچے
( حضرت مولانا مفتی محمد شہزاد شیخ صاحب ١ )
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّا بَعْدُ !
اللہ جل جلا لہ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کی محبت ودیعت کی ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس کی جنس ، رنگت، قد کاٹھ، خوبصورتی و بد صورتی سے قطع نظر والدین کواپنی اولاد ہر حال میں محبوب ہوتی ہے ! جسمانی یا ذہنی طورپر معذور بچہ بھی والدین کے لیے ایسا ہی پیارا ہو تاہے جیسے کسی خوبصورت یاعقلمند و ہو نہار بچے کے لیے والدین کے دل میں جگہ ہو تی ہے ! اگریہ محبت نہ ہوتی تواولاد کی نگہداشت وپر ورش بھی نہ کی جا سکتی تھی۔
اس محبت ہی کے تقاضے کی وجہ سے والدین کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اپنی اولاد کی ضرورتوں کو اَحسن انداز میں پو راکریں حتی کہ اولاد کی خواہشات کی خاطر وہ اپنی ضروریات کوبھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے، اولاد کی اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارہ کرتے ہیں اس محبت کے تقاضے پو رے کرتے ہوئے والدین اولاد کی مادّی ضرورتوں کوتو باہم پورا کرتے ہیں البتہ اَفراطِ محبت میں بعض اوقات اخلاقی ضرورتوں سے صَرفِ نظر ہو جاتا ہے، معاشرے میں اپنے اِردگردماحول کی دیکھا دیکھی اپنی اولاد کو کچھ ایسی چیزیں مہیا کر دیتے ہیں جواُن کی جسمانی، رُوحانی، اخلاقی اور تعلیمی تباہی کاباعث بنتی ہیں ! والدین کواُس وقت تواِس بات کااحساس نہیں ہوتا مگر جب ان مسائل سے دو چار ہوتے ہیں تب تک یہ برائیاں جڑ پکڑ چکی ہوتی ہیں۔
١ لیکچرار نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ اِیمرجنگ سائنس،کراچی
ٹی وی اور اِنٹر نیٹ کے عمومی مفاسد تو بہت ہیں جس کے بارے میں بہت کچھ لکھا بھی جا چکا ہے یہاں اُن کی چند ذیلی شاخوں یعنی کارٹون اور ویڈیوگیم کے نقصانات کا تذکرہ مقصود ہے کہ جس سے ہمارے بچے بے حد متاثر ہو رہے ہیں ! آج کل کار ٹون اور ویڈیو گیم کواَولادکے لیے اُن کے بچپن کی ضرورت اوربے ضرر سمجھ لیاگیاہے، والدین یہ سوچ کر کہ بچے کے گلی محلے میں جانے سے بہتر یہ ہے کہ ہمارے سامنے رہ کرگھر میں ہی کار ٹون یا ویڈیو گیم سے لطف اندوز ہولیں لیکن یہ عمل کتنا خطرناک ہوسکتا ہے اس کااَندازہ تویہ تحریر پڑھ کر ہی ہوگا ! !
''اَو لاد'' اللہ جل جلا لہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اُو لو العزم اَبنیاء نے بھی اپنے لیے نیک اور متقی اولاد کی تمنا کی ہے، نعمت کا شکر اَداکرنا ہر اِنسان پر ضروری ہے، اولاد کی نعمت پر اَدائیگی شکر کا ایک طریقہ اُس کی اچھی تر بیت ہے جس کی سب سے پہلی ذمہ داری والدین پر عائد ہو تی ہے کیونکہ والدین کی آغوش ہی اولاد کے لیے سب سے پہلی درسگاہ اور تر بیت گاہ ہوتی ہے !
قرآنِ کریم میں اللہ جل جلا لہ نے ایمان والوں کو اپنے اہلِ خانہ کی دینی تعلیم و تربیت اور اَعمال واَخلاق کی نگرانی کاسختی سے حکم دیاہے چنانچہ اِشادِ باری تعالیٰ ہے :
( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْھَا مَلٰئِکَة غِلَاظ شِدَاد لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ) ١
''اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کواُس آگ سے بچاؤ جس کا اِیندھن انسان اور پتھر ہوں گے ! اُس پر سخت کڑے مزاج کے فر شتے مقرر ہیں جواللہ کے کسی حکم میں اُس کی نا فرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو حکم اُنہیں ملتا ہے ''
حضرت علی رضی اللہ عنہ اس آیت ِ مبارکہ( قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا ) کی تشریح علم واَدب سکھانے سے کرتے ہیں ! حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ جل جلا لہ کی اطاعت میں لگو، گناہوں سے بچو اور اپنے اہلِ خانہ کو ذکر کا حکم دو، اللہ جل جلا لہ تمہیں جہنم سے نجات دیں گے ! ! ٢
١ سُورة التحریم : ٦ ٢ تفسیر اِبن کثیر ج ٨ ص ١٦٧
تر بیتِ اولاد کس قدر ضروری ہے اس کا اَندازہ درجِ ذیل آیت سے ہوتا ہے کہ جس میں ''عبادالرحمن'' (اللہ کے نیک بندوں) کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اللہ جل جلا لہ نے اِس دُعا کا بھی ذکر کیا ہے جووہ اپنے اہل و عیال کے لیے کرتے ہیں ! گویا ''عبادالرحمن'' محض اپنی ذاتی کوششوں پر اِعتماد نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت اللہ جل جلا لہ کی طرف باطنی طور پر بھی متوجہ رہتے ہیں اور اس سے بالخصوص اپنے اہل و عیال کی ظاہری اور با طنی اصلاح کے طالب ہوتے ہیں چنانچہ اِرشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
( رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا )
''اور جو (دُعا کرتے ہوئے) کہتے ہیں ہمارے پر ور دگار ! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پر ہیز گاروں کا سر براہ بنادے''
حضرت عِکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حسن و جمال مراد نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ جل جلا لہ کے فر مانبردار ہو جائیں ! حضرت حسنِ بصری رحمة اللہ علیہ سے جب اس آیت کی بابت در یافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان بندہ اپنی بیوی بھائی اور دوست سے اللہ جل جلا لہ کی اطاعت ہوتے دیکھے اور خدا کی قسم کوئی چیز بھی ایک مسلمان بندے کی آنکھوں کے لیے ایسی ٹھنڈک نہیں ہوسکتی بجز اِس کے کہ وہ اپنے بیٹے، پوتے اور دوست کو اللہ جل جلا لہ کا فرما نبردار دیکھے ! ! ٢
اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی دُعا پر غور کیجیے کہ کیسے اپنے اہلِ خانہ کے لیے اللہ جل جلا لہ سے صلاح و خیر طلب کر رہے ہیں :
( رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ ) ٣
١ سُورة الفرقان : ٧٤ ٢ تفسیر اِبن کثیر ج ٦ ص ١٣٢ ٣ سُورة النمل : ١٩
''میرے پر ور دگار ! مجھے اِس بات کا پا بند بنا دیجیے کہ میں اُن نعمتوں کا شکر اَدا کروں جوآپ نے مجھے اور میرے والدین کوعطافرمائی ہیں اور وہ نیک عمل کروں جوآپ کو پسند ہو اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل فرما لیجیے''
اللہ جل جلالہ سے اپنے اہلِ خانہ کے لیے دُعا کے ساتھ ساتھ اُن کو وعظ و نصیحت بھی بہت ضروری ہے چنانچہ اِس نصیحت کی اہمیت کو اُجا گر کرنے کے لیے اللہ جل جلالہ نے اپنے نیک بندے حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کونصیحت کاتفصیل سے ذکر کیاہے ! ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہ وَ ھُوَ یَعِظُہ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْم عَظِیْم۔ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ ۔ وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْم فَلَا تُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔ یٰبُنَیَّ اِنَّھَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِھَا اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْف خَبِیْر۔ یٰبُنَیَّ اَقِمَ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْروْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ۔ وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ۔ وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ ) ( لقمان : ١٣ تا ١٩ )
''اور وہ وقت یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک نہ کر نا اور یقین جانو شرک بڑا بھاری ظلم ہے !
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے بارے میں یہ تا کید کی ہے (کیونکہ) اُس کی ماں نے اُسے کمزور ی پر کمزوری بر داشت کرکے پیٹ میں رکھا اور دو سال میں اُس کا دُودھ چھوٹتا ہے کہ تم میرا شکر اَدا کرو اور اپنے ماں باپ کا، میرے پاس ہی (تمہیں) لوٹ کر آنا ہے !
اور اگر وہ تم پر یہ زور ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی کو (خدائی میں) شریک قرار دو جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں تو اُن کی بات مت مانو ! اور دُنیا میں اُن کے ساتھ بھلائی سے رہو ! اور ایسے شخص کاراستہ اپناؤ جس نے مجھ سے لَو لگا رکھی ہے ! پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے اُس وقت میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ؟ !
(لقمان نے یہ بھی کہا ) ''بیٹا ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برا بر بھی ہو اور وہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں یا زمین میں، تب بھی اللہ اُسے حاضر کر دے گا ! یقین جانو اللہ بڑا باریک بیں بہت با خبر ہے !
بیٹا ! نماز قائم کرو اور لو گوں کو نیکی کی تلقین کرو اور برائی سے روکو، تمہیں جو تکلیف پیش آئے اُس پر صبر کرو، بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے !
اور لو گوں کے سامنے (غرور سے) اپنے گال مت پُھلاؤ اور زمین پر اِتراتے ہوئے مت چلو ! یقین جانو اللہ کسی اِترانے والے شیخی باز کوپسند نہیں کرتا !
اور اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو اور اپنی آواز آہستہ رکھو ! بے شک سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے ''
حدیث شریف میں بھی آنحضرت ۖ نے بڑی سخت تاکید فرمائی ہے، ارشادِ نبوی ہے :
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ قَالَ: اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُل عَنْ رَعِیَّتِہ : فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ،وَھُوَ مَسْؤُل عَنْ رَعِیَّتِہ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِہ وَھُوَمَسْؤُل عَنْ رَعِیَّتِہ۔وَالْمَرْأَةُ رَاعِیَة عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہ وَھِیَ مَسْؤُلَة عَنْھُمْ۔ عَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہ وَھُوَ مَسْؤُل عَنْہُ ، اَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُل عَنْ رَعِیَّتِہ۔ ١
١ صحیح البخاری کتاب الاحکام رقم الحدیث ٧١٣٨
''حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اُس کو دی گئی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا ! حاکمِ وقت بھی ذمہ دار ہے اُس سے اُس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا ! مرد اپنے اہلِ خانہ کا ذمہ دار ہے اُس سے اِس بارے میں پو چھا جائے گا ! عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور بچوں کی ذمہ دار ہے اُس سے اس بارے میں پوچھا جائے گا ! غلام (آج کے دور میں نوکر) مالک کے مال کا ذمہ دار ہے اُس سے اس بارے میں پو چھا جائے گا ! الغرض ہر آدمی ذمہ دار ہے اُس سے اُس کی ذمہ داری کے بارے میں پو چھا جائے گا ''
ماں باپ کی طرف سے اولاد کے لیے کسی مادّی تحفے کے بجائے سب سے اَعلیٰ اور بیش بہا انعام یہی ہے کہ اُن کی تر بیت مثالی ہو، وہ سیرت و اَخلاق کے بلند مر تبے پر فائز ہوں، اپنے کر دار اور اَدب و آداب میں نمایاں ہوں ! ! ارشاد ِ نبوی ہے :
اَیُّوْبُ بْنُ مُوْسٰی عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ قَالَ: ( مَا نَحَلَ وَالِد وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ ) ( سُنن الترمذی ج ٤ ص ٣٣٨ )
''رسول اللہ ۖ نے فرمایا کسی باپ نے اپنی اَولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ِ اَدب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا''
دین ِ اسلام نے والدین کوایک اور نہایت ہی اَحسن اَنداز میں یہ بات سمجھا ئی ہے کہ اولاد کی تربیت نہ صرف دُنیا میں اُن کے کام آئے گی بلکہ مرنے کے بعد بھی اس عمدہ تربیت کا فائدہ والدین کو پہنچتا رہے گا، ارشادِ نبوی ہے :
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ قَالَ اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہ اِلاَّ مِنْ ثَلَاثَةٍ : اِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ ، اَوْعِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہ ، اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدعُوْلَہ ۔ ( صحیح مسلم کتاب الوصیة رقم الحدیث ١٦٣١)
''نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اُس کے اَعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین باتوں کے : ایک یہ کہ کچھ صدقہ جاریہ کردے یا علم جس سے لوگ فائدہ اُٹھائیں یا نیک اولاد جو اُس شخص کے لیے دُعا گو رہے''
دورِ جدید کی ایجا دات کے تناظر میں طبیعت ِ انسانی میں جو فرق رُو نما ہو رہا ہے اور جس طرح معا شرتی اقدار کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے اس سے بچے بہت زیادہ متا ثر ہو رہے ہیں ! بچوں میں چونکہ اِنفعالیت زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ بچے بہت جلد کسی بھی چیز کا اَثر قبول کر لیتے ہیں خواہ وہ اچھی ہو یابری ! ! پھر اِن کچے ذہنوں میں پڑجانے والی باتیں جب رُسوخ پکڑ جاتی ہیں تو آنے والی زند گی پر اُس کے بڑے اَثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ان ہی جدید چیزوں میں کارٹون اور ویڈیو گیم و دیگر غیر ضروری اور لغو اشیاء شامل ہیں جوبظاہر تو کھیل کو د اور تفریح کی دُنیا سے تعلق رکھتی ہیں لیکن یہ بچوں کی تربیت اور طبیعت پر بہت گہرے منفی اَثرات ڈالتی ہیں۔
ٹی وی اور اِنٹر نیٹ کے بارے میں چونکہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اس لیے یہاں صرف ٹی وی اور اِنٹرنیٹ کی چند ذیلی شا خوں یعنی کار ٹون اور ویڈیو گیم کے مفاسد کا تذکرہ کیا جائے گا ! ! (جاری ہے)
وفیات
٢٨ ذوالحجہ ١٤٤٣ھ/٢٨ جولائی ٢٠٢٢ ء بروز جمعرات کوہِ مری کے حاجی شعیب صاحب عباسی مرحوم کی اہلیہ محترمہ اور مولانا محمد قاسم صاحب عباسی کی والدہ صاحبہ طویل علالت کے بعد مری میں انتقال فرماگئیں مرحومہ بہت با اخلاق اور مہمان نواز خاتون تھیں۔
١٨ محرم الحرام ١٤٤٤ھ/١٧ اگست ٢٠٢٢ ء کو چارٹرڈاَکائونٹنٹ محترم الحاج شاہد اشرف صاحب کی والدہ صاحبہ نوے سال کی عمر پاکر لاہور میں انتقال فرماگئیں۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومہ کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میںایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں۔
منجانب : سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
+92 - 333 - 4249302 +92 - 333 - 4249301
+92 - 335 - 4249302 +92 - 345 - 4036960

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.